رات یہ رات کو خورشید بکف آئی ہے
نعمتِ حق لیے بندوں کی طرف آئی ہے
رحمتیں جوش پہ ہیں بندہ نوازی کے لیے
تِیرگی آج مُصلّےٰ ہے نمازی کے لیے
شائع ہوتی ہے نصیبوں کی کتاب آج کی رات
پیش ہوتا ہے زمانے کا نصاب آج کی رات
آج کی رات فرشتوں کو جو احکام مِلیں
سال بھر اُس کے مطابق غم و انعام مِلیں
دھڑکنیں بھی ہوں عطا ، سانّسیں بھی کاٹی جائیں
پرچیاں زندگی و مَوت کی کاٹی جائیں
تُو بھی کُچھ اپنے لیے اے تہی دامن کر لے
مسجدِ عمر کو سجدوں سے مزیّن کر لے
خاکِ دل ‘ خَیر کے جھونکوں سے ہری ہوتی ہے
معصیت ‘ عفوِ الٰہی سے بَری ہوتی ہے
ذہن و احساس کا دروازہ کُھلا رہنے دے
آج کی رات تو ہونٹوں پہ دُعا رہنے دے
ساعتِ بے طلبی کب تِرے کام آئے گی
کام آئی تو یہی شب ترے کام آئے گی
شاعر کا نام :- مظفر وارثی
کتاب کا نام :- کعبۂ عشق