مجھے چنا گیا لاکھوں میں آزمائش کو

مجھے چنا گیا لاکھوں میں آزمائش کو

یہ میرا اپنا مقدر ہے خوش نصیب ہوں میں


تھے یوں تو لاکھوں ہی زائر منیٰ کے میداں میں

پر آگ نے مجھے تاکا، یہ حکمِ ربی تھا


میں بچ نکلتا، یہ میرے لیے نہ تھا مشکل

میں ماں کو چھوڑتا کیسے اس آگ کے اندر


گھسیٹتا انہیں میں لے گیا پہاڑی پر

پہنچنے والے تھے اوپر مگر تبھی امی


نڈھال ہو کے گریں اور ہوگئیں بے ہوش

یہ وقت وہ تھا کہ آگ آگئی ہمارے قریب


بدن سے میں نے چھپایا پھر اپنی امی کو

اور آگ مجھ کو جھلستی ہوئی نکلتی گئی


وہ ایک لمحہ کہ مرنے کا جب ہوا احساس

دھوئیں نے روک دیں سانسیں اس ایک پل کے لیے


زباں پہ جاری ہوا کلمہ اور درود شریف

خدایا تیرے نبی کا میں ایک نواسہ ہوں


اگر میں جل گیا کیا ہوگا میرے بچوں کا

ابھی ہے مجھ کو بہت کام دین کا کرنا


ابھی تو لکھنی ہیں مجھ کو بہت سی نعتیں بھی

ترے حبیبِ مکرم کا میں ثنا خواں ہوں


مجھے حوالے نہ کر آگ کے مرے مولیٰ

گناہ گار ہوں عصیاں شعار ہوں پھر بھی


گلے میں پٹّہ ہے بغداد والے آقا کا

رگوں میں خون ہے مارہرہ والے سید کا


تبھی نظر پڑی ایک خالی بس کھڑی مجھ کو

میں اس میں بیٹھا سلگتے ہوئے وہ زخم لیے


پھر اسپتال میں داخل کیا گیا مجھ کو

اٹھارہ دن رہا مکہ کے اسپتالوں میں


خدا کا شکر کہ ارکانِ حج ہوئے پورے

سماں وہ آج بھی آنکھوں میں گھوم جاتا ہے


نہ جانے کتنے نفر آگ میں شہید ہوئے

بہت سے ہوگئے معذور زندگی بھر کو


خدا نہ ایسی مصیبت دوبارہ لائے کبھی

سلامتی میں ہوں سارے کے سارے حج پورے


عبادتوں میں نہ رخنہ پڑے کبھی کوئی

منیٰ کے سارے شہیدو تمہیں ہمارا سلام


تمہیں تو حج سے بھی بڑھ کر کہیں ملا انعام

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

زمانہ حج کا ہے جلوہ دیا ہے شاہد گل کو

میں کسی کی ہوں نظر میں کہ جہاں میری نظر ہے

چلی پیا کے دیس دولہنیا بھیس بدل کے

فضل سے مولیٰ کے خُرّم حافظِ قرآں بنا

فروزاں انجمن سے جارہا ہوں

میں اس رات کی بے ازل

مَیں ماٹی کی مورتی ، ماٹی میرا دیس

سب سے سیدھا سب سے سچا ہے نظام اللہ کا

ہے اوج پر آج ان کی رحمت بڑے خزانے لٹا رہی ہے

اے مرے بھائیوسب سنو دھر کے کاں