اے مرے بھائیوسب سنو دھر کے کاں

اے مرے بھائیوسب سنو دھر کے کاں

عیش وعشرت کی اُڑ جائیں گی دھجّیاں


آخِرت کی کرو جلد تیّاریاں

موت آکر رہے گی تمھیں بے گُماں


موت کا دیکھو اِعلان کرتا ہوا

سُوئے گورِغریباں جنازہ چلا


کہتا ہے، جامِ ہستی کو جس نے پیا

وہ بھی میری طرح قَبر میں جائیگا


تم اے بوڑھو سنو! نوجوانو سنو

اے ضَعیفو سنو! پہلوانو سنو!


موت کو ہر گھڑی سر پہ جانو سُنو

جلد توبہ کرو میری مانو سنو!


جس کا سنسار میں ہو گیا ہے جنم

رب کی ناراضیوں سے بچے دم بہ د م


ورنہ پچھتائے گا قبر میں لا جَرَم

ہو گا برزخ میں رنج اُس کو دوزخ میں غم


فلم بِینی کا تم مَشغَلہ چھوڑ دو

سارے آلاتِ لَہو و لَعِب توڑ دو


بھائیو! سب گناھوں سے منہ موڑ دو

ناتا تم نیکیوں ہی سے بس جوڑ دو


ایک دن موت آکر رہے گی ضَرور

اس کو تم مجرِمو! کچھ سمجھنا نہ دور


بعدِ مُردَن نہ پاؤ گے کوئی سُرور

ایسے ہو جائے گا خاک سارا غُرور


کب تلک تم حُکومت پہ اِتراؤ گے

کب تک آخِر غریبوں کو تڑپاؤ گے


ظالمو! بعد مرنے کے پچھتاؤ گے

یاد رکّھو! جہنَّم میں تم جاؤ گے


قبض پَیکِ اَجَل روح کر جائیگا

جسمِ بے جاں تڑپ کر ٹَھہَر جائیگا


قبر میں تو اکیلا اتر جائیگا

ساتھ تیرے نہ کوئی بشر جائیگا


بادشاھوں کی بکھری ہوئی ھڈّیاں

کہہ رہی ہیں نہ بننا کبھی حکمراں


اِحتِساب اِسکا گزرے گا تم پر گِراں

حشر میں جب کہ جاؤ گے مر کر میاں


موت کا جانور کو ہو اِدراک گر

گوشت اچھّا نہ کھانے کو پائے بشر


غافِل انسان سے بڑھ گیا جانور

موت سے آگَہی ہے مگر بے خبر


چھوڑو عادت گناہوں کی جاؤ سُدھر

ورنہ پھنس جاؤ گے قبر میں سر بسر


گر عذابوں کو دیکھو گے جاؤ گے ڈر

تم بتاؤ کہاں جاؤ گے بھاگ کر


جو دُکانیں خِیانت سے چمکائیں گے!

کیااُنہیں زَر کے اَنبارکام آئیں گے؟


قہرِ قَہّار سے کیا بچا پائیں گے؟

جی نہیں، نارِدوزخ میں لے جائیں گے


مالِ دنیا ہے دونوں جہاں میں وبال

آئیگا قَبر میں ساتھ ہرگز نہ مال


حشر میں ذرّے ذرّے کا ہوگا سُوال

آپ دولت کی کثرت کاچھوڑیں خیال


غافلو! قبر میں جس گھڑی جاؤ گے

سانپ بچھّو جو دیکھو گے چِلّاؤ گے


سر پچھاڑو گے پر کچھ نہ کر پاؤ گے

بے حد اپنے گناہوں پہ پچھتاؤ گے


قَبر میں شَکل تیری بگڑ جائیگی

پِیپ میں لاش تیری لِتھَڑ جائیگی


بال جھَڑ جائیں گے کھال اُدھڑ جائیگی

کیڑے پڑ جائیں گے نَعش سڑ جائیگی


مت گناہوں پہ ہو بھائی بے باک تُو

بھول مت یہ حقیقت کہ ہے خاک تُو


تھام لے دامنِ شاہِ لولاک تُو

سچّی تَوبہ سے ہو جائے گا پاک تُو


جو بھی دنیا سے آقا کا غم لے گیا

وہ تو بازی خدا کی قسم لے گیا


ساتھ میں مصطَفٰے کا کرم لے گیا

خُلد کی وہ سند لاجَرَم لے گیا


جو مسلمان بندہ ِنکوکار ہے

رب کے محبوب کا عاشقِ زار ہے


قَبر بھی اُس کی جنّت کا گلزار ہے

باغِ فردوس کا بھی وہ حقدار ہے


قلب میں جس کے راسِخ ہے خوفِ خدا

جو مقدّر سے ہے عاشقِ مصطَفٰے


اُس کو نارِ جہنَّم سے کیا واسِطہ

مرتے ہی بالیقیں سُوئے جنّت گیا


ہے عمل جس کا ہر ’’ مَدنی اِنعام‘‘ پر

’’قافِلوں‘‘ میں مُیَسَّر ہے جس کو سفر


جو بھی ’’نیکی کی دعوت‘‘ پہ باندھے کمر

اُس پہ چشمِ کرم یاشہِ بحروبر!


تو بڑا بامقدَّر اے عطارؔ ہے

تو غلامِ شَہَنْشاہِ اَبرار ہے


ہر قدم پر محمد مددگار ہے

اِنْ شَاءَ اللہ بیڑا تِرا پار ہے


’’قافِلے‘‘ کو جو ہر وقت تیّار ہے

مرحبا اُس سے عطارؔ کو پیار ہے


اُس کے حق میں دعا کرتا عطّارؔ ہے

اِس کو جنّت میں ساتھ اُس کا درکار ہے

شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری

کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش

دیگر کلام

پیمی جی ہم کو مارہرہ بلوائیے

نہ میں شاعر نہ شاعر کی نوا ہوں

فضل سے مولیٰ کے خُرّم حافظِ قرآں بنا

اٹھ شیرا پاکستان دیا ہن جاگ تے ہو ہشیار اڑیا

صبحِ شبِ ولادت بارہ ربیع الاول

امرت امرت گیت لئے جب برکھا موتی رولے

نشانِ کارواں بھی ہوگئے گُم

راتوں کی بسیط خامشی میں

تِرا شکر مولا دیا مَدنی ماحول

یارب ہمیں بلندیٔ فکر و خیال دے