نشانِ کارواں بھی ہوگئے گُم

نشانِ کارواں بھی ہوگئے گُم

کہ کنتم خیر امّت کیا نہیں تم


کھُلا دشمن کا رازاب تک نہ شاید

کہ پیسہ اور بیٹا ہی عدّو لکم


تلاشِ حق میں نکلو حق کو پاؤ

سمجھ لو فاذکرو انی اذکر کم


بہت کھولے گئے اسرارِ الٰہ

مگر یوں تک رہے ہو جیسے ہو صُم


تمہیں کر گس نے نوچا پا کے مردہ

مگر حکمِ خدا ہے قوم ہو قُم


شفائے جسم تو ہوجائے لیکن

پُرانا مرض ہے فی قلوبکم


رحیلِ کا رواں کا وقت آیا

مگر مہندی لگی ہے فی ید یکم


حیاتِ جا دواں کو کیسے پاؤ

کہ خَم کو چھوڑ کر تم ہوگے خُم


مکینِ لامکاں کی بات سُن لو

ہوا ہے جلوہ گر فی انفسکم


نظامِ میکدہ بدلا ہوا ہے

کہ ساقی ہیں اولی الامر منکم


سر یرِ جاں کا مطلب بھی سمجھ لو

مقامِ شکر ہے ولنبلونّکم


اِمامِ وقت کے آنے دن ہیں

اگل دو آگ جو ہے فی بطونکم


مجھے پِیرمغاں نے کہہ دیا ہے

کہ فتبعو انی یُجبکم


کبھی انا کبھی معنا کبھی نحن

سمجھ پاؤ نہ تم ھُوھُماھُم


وہی ملّت ہے جو تھی خیر امّت

کہ ارسَلنا رسُولٌ منکم


نِشانِ بے نِشاں ہیں جانِ عالمؐ

نہ سمجھو تم تو بشر مثلکم


نہ سمجھو گے تو مِٹ جاؤ گے سُن لو

غرق ہو جاؤ گے فی طُغیا نکم


عبادت فرض ہے مل کرکرو تُم

نہ بھو لو حکم اعبدوا ربّکم


تمھارے حال پر روتی ہے رحمت

یاایّھاالمذمّلُ قُم!


کہ شاعر کی نوا سمجھے اسے بھی

تو لی دینی ولکم دینکم


صدائے حق سے باغی ہوگئے ہو

ھذا فراق بینی و بینکم


کہا واصؔف نے جو کچھ بھی سُنا ہے

وگرنہ وہ تھا گہری سوچ میں گُم

شاعر کا نام :- واصف علی واصف

کتاب کا نام :- شبِ راز

دیگر کلام

سنَّت کی بہار آئی فیضانِ مدینہ میں

مژدہ اے دل کہ ترے درد کا درماں آیا

زمین آدھی تاریک ہے

گریۂ کُن بُلبلا از رنج و غم

نہیں کچھ بھی اس کے سوا چاہیے

زہد و تقویٰ کا تھا شہرہ جن کا ہندوستان میں

کاش ہم منیٰ کے ان شعلوں کو نگل جاتے

میں اس رات کی بے ازل

ذوالفقار حیدر کے سر جو چھا گیا سہرا

رونقِ بزمِ جہاں ہیں عاشقانِ سوختہ