حکایت غمِ ہستی تمام کہتا ہوں

حکایت غمِ ہستی تمام کہتا ہوں

میں دل کی بات بفیضِ امام کہتا ہوں


عزیمت ان کی ہے آئینہء ضمیر نما

انہیں سلام بصد احترام کہتا ہوں


ہے لازوال کچھ ایسا حسین کا کردار

اسے بہارِ بقائے دوام کہتا ہوں


عبادتِ شبِ آخر وہ پورِ حیدرکی

جسے وقارِ قعود و قیام کہتا ہوں


انہی کے در کو سمجھتا ہوں بابِ استقلال

انہی کے گھر کو میں دار السلام کہتا ہوں


یہ انتساب ہے سرمایہء ثبات مرا

کہ خود کو آلِ نبیؐ کا غلام کہتا ہوں


یہ حوصلہ بھی ہے تائبؔ، عنایتِ شبیر

جو حرفِ حق میں سرِ بزمِ عام کہتا ہوں

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

دیگر کلام

مروّت کا بانی حسن ابنِ حیدر

چرچا ہے جہاں میں تری تسلیم و رضا کا

حسین ابنِ علی ماہِ مطلعِ ارشاد

جہاں میں نورِ حمیت کو عام کس نے کیا

اشقیا کے نرغے میں یوں حسین تھا تنہا

لرزے نہ عزم کا عَلَم خونِ حسین کی قسم

ہر زمانے میں ہے تا بندہ حسین

شبیرِ نا مدار پہ لاکھوں سلام ہوں

عزم و استقلال کا پیکر حسین ابنِ علی

چرخِ رضا کے نیّرِ اعظم