کیسے لڑیں گے غم سے، یہ ولولہ ملا ہے

کیسے لڑیں گے غم سے، یہ ولولہ ملا ہے

ہم کو حسینیوں سے اک راستہ ملا ہے


کربل میں ابرِ باراں اس بار جو ہوئی ہے

اصغر ترے لہو سے تر بلبلہ ملا ہے


کربل کی ریت پر اک معصوم کی ادا سے

اسلام کی بقا کو پھر لخلخہ ملا ہے


کوڑا بچھائے کوئی، کانٹے چبھوئے کوئی

فخرِ رسل کے گھر سے حرفِ دعا ملا ہے


سلطاں کوئی جو پہنچا آلِ نبی کے در پر

سلطان بھی وہاں کا ادنٰی گدا ملا ہے


حسنین کی دعا سے محمود پر شفاعت

کا سب کو مصطفٰی سے اک آسرا ملا ہے


ہم کو عزیز تر ہے مغموم کی صدائیں

بخشش کا دلربا اک جو سلسلہ ملا ہے


گاتا رہوں گا تا دم چاہے یہ جاں بھی جائے

فردوس تک جو مدحت کا زم زمہ ملا ہے


ابنِ علی ولی سے قائم تو رابطہ رکھ

تجھ کو محبتوں کا اُن سے صلہ ملا ہے

شاعر کا نام :- سید حب دار قائم

کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن

دیگر کلام

ایماں کی حرارت ہے الفت ابو طالب کی

سخنوری میں زیر اور زبر کہے علیؑ علیؑ

تبھی دل میں سرایت ہے ،علی ہمدم علی ہست

علیؑ تحریرِ نوری ہے علی مذکورِ مولیٰ ہے

ہر دکھ یزیدیوں سے اٹھایا حسین نے

زمیں پہ رب نے اتارا حسین ابن علی

تیری ہر اک ادا علی اکبر

نور کی شاخِ دلربا اصغر

مرے ٹوٹے ہوئے دل کو میسر کب سماں ہوں گے

(ترجیع بند)بہارِ فکر ہے تذکارِ خواؐجہ لولاک