اپنا وجود بھول جا عشقِ نبی میں جھوم جھوم
سجدہء دل تُو کر ادا چوکھٹ کو ان کی چوم چوم
طیبہ کی سرزمین پر چلنا ہے چل تُو سر کے بل
پڑھ لے نمازِ عشق تُو اک اک گلی میں گھوم گھوم
کس کی جبینِ ناز پر سہرا بندھا شفیع کا
فرش سے لامکاں تلک کس کی مچی ہے دھوم دھوم
صلِ علیٰ نبینا صلِ علیٰ محمدٍ
ان کے ہی تذکرے میں ہے ہر ہر زباں قلم قلم
ان کی ہی جستجو میں ہے ہر کارواں قدم قدم
ان کے ہی احترام میں سر بسجود حرم حرم
زیبا ہے ان کی ذات کو جود و سخا کرم کرم
ان کے ہی نعت خواں رہے سارے رسول دم بدم
محشر کے روز ان کے ہی لب پر رہے منم منم
صلِ علیٰ نبینا صلِ علیٰ محمدٍ
ان کے ہی نور کا ظہورکونین میں جگہ جگہ
ان کی ہی آب و تاب سے روشن ہوئی نگہ نگہ
ان سے جو متصل ہوا جنت کا مژدہ پا گیا
ان سے جو منحرف ہوا قلب ہوا سیہ سیہ
ان کی ہی نسلِ پاک نے پایا لقب منورہ
انوارِ مصطفیٰ سے ہی روشن ہوئے یہ مہر و مہ
صلِ علیٰ نبینا صلِ علیٰ محمدٍ
نظمی تمھارے نام کا شہرہ ہوا نگر نگر
نعتِ رسول کے طفیل عزت ملی ڈگر ڈگر
دشمن تمھارے ٹھوکریں کھاتے پھریں گے در بدر
اپنے تمھارے جو بھی ہیں خوش حال ہوں گے سر بسر
آخر میں اس کلام پر اپنا کلام ختم کر
بعد از خدا بزرگ تُوئی ہے یہی قصہ مختصر
صلِ علیٰ نبینا صلِ علیٰ محمدٍ
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا