میں تھا اور مری تنہائی تھی تنہائی بس تنہائی
کوئی نہ ساتھی کوئی نہ ہم دم یاس کی گھور گھٹا چھائی
تب پھر یادِ مدینہ لے کر بادِ صبا صر صر آئی
گنبدِ سبز کی رنگت سے پھر روح میں ہریالی آئی
دیکھی ان کی یاد کی برکت صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
لمس سے کس کے قدموں کے یہ عرش الٰہی اترایا
ملکوت و جبروت کے پردے طے کرتا یہ کون آیا
کس بندے کو اس کے رب نے اپنی جانب بلوایا
دیکھو دیکھو کون بشر خالق کے اتنے قریب آیا
ہاں وہی نوشہء بزمِ جنت صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
دنیا کو جینے کا سلیقہ کس نے سکھایا آقا نے
جنت تک کا سیدھا رستہ کس نے دکھایا آقا نے
کیا ہے ثواب اور کیا ہے گناہ کس نے بتلایا آقا نے
رب تک کیسے پہنچوگے کس نے سمجھایا آقا نے
ہادیِ اعظم صاحبِ حکمت صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
ان کے گھر میں جبریل آئیں بنا اجازت ، ناممکن
رب کے یہاں سے رد ہو کسی دم ان کی شفاعت ناممکن
سارے جہاں میں ان سے بہتر کوئی فصاحت ناممکن
بانٹے ان کے علاوہ کوئی رب کی نعمت ناممکن
مالکِ کثرت صاحبِ رحمت صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
خالقِ کل نے مالکِ کل کس کو ٹھہرایا کون ہیں یہ
رحمتِ عالم کس کے لیے رب نے فرمایا کون ہیں یہ
چنے ہوئے بندوں میں کسے محبوب بنایا کون ہیں یہ
اور شفاعت کا خلعت کس کو پہنایا کون ہیں یہ
ہاں ہاں شمعِ بزمِ ہدایت صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
نعت کا یہ انداز نیا کس نے اپنایا نظمی نے
کلکِ رضا کا سایہ جگ کو کس نے دکھایا نظمی نے
ایک ایک شعر میں رنگِ رضا کس نے چمکایا نظمی نے
قلم کا جادو گھر گھر دل دل کس نے جگایا نظمی نے
یہ ہے شہِ بطحا کی عنایت صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا