خدا کا بندہ ہمارا آقا
حرا میں کس کو ضیا ملی تھی
یہ کون فاران پر چڑھا تھا
امین و صادق خطاب والا
خدا کی روشن کتاب والا
کہ جس کی صورت
خدائے واحد نے اپنے بندوں کو
نعمتِ لازوال بخشی
سلامتی امن و آشتی کے اصول دے کر
کسے خدا نے عرب میں بھیجا
عرب
جہاں تھے زبان والے
زبان دانی پہ جن کو اپنی بڑا تھا غرّہ
زمانے بھر کی برائیوں کو
جو نیکیوں میں شمار کرتے
شراب پیتے
قمار بازی پہ ناز کرتے
عرب کی شمشیر بات بے بات
اس پہ گرتی اسے گراتی
عرب
جو بیٹی کو پیدا ہوتے ہی
زندہ درگور کر رہے تھے
عرب
جو کعبے میں بت سجا کر
مطاف میں ڈھول اور تاشوں کی گت پہ
اپنی جہالتوں کو روایتوں کو ضلالتوں کو
نہ جانے کب سے نچا رہے تھے
تجارت ان کی عروج پر تھی
مگر وہ خود
گمرہی کے سکوں کی کھن کھنا کھن پہ
مست و مدہوش
بت پرستی کی منڈیوں میں
ضمیر اور ایمان اور عقیدے کو
مفت نیلام کر رہے تھے
یہ وقت وہ تھا کہ ساری دنیا میں
ربِ واحد کے ماننے والے
چند افراد رہ گئے تھے
شریعتیں گمرہی میں گم تھیں
طریقیتں کج روی میں ضم تھیں
حقیقتیں بد عقیدگی کے الاؤ پر
چرمرا رہی تھیں
نصیحتوں کے گلے میں
طوقِ ملامت و لعن
جانے کب سے پڑا ہوا تھا
قریش کے خاندانِ عالی سے
آمنہ کا وہ لعل اٹھا
عرب کی ظلمات میں
وہ وحدت کی
نوری شمعیں جلاتا آیا
حرا سے اس کو ضیا ملی تھی
عرب کو وحدت کا درس دینے
شرافتوں کا سبق سکھانے
ضلالتوں کا اثر مٹانے
وہی تو فاران پر چڑھا تھا
وہ انبیا و رسل کا ملجا
خدا کا پیارا ہمارا آقا
وہ نیکیوں کا پیام لایا
وہ امن لایا سلام لایا
خدا کا سچا کلام لایا
وہ رحمتیں سب کے نام لایا
شریعتوں کو دوام بخشا
طریقتوں کو نظام بخشا
ہمیں مسلمان نام بخشا
زباں سے اس کی جو لفظ نکلا
حدیث و قرآن بن کے چمکا
وہ منبعِ رحمت و کرم تھا
صداقتوں کا عدالتوں کا
سخاوتوں کا شجاعتوں کا
سیادتوں کا شہادتوں کا
ولایتوں کا امامتوں کا
فضیلتوں کا کرامتوں کا
وہ نوری پیکر
کہ جس نے قول و عمل کے ذریعے
جہاں کو سچائیاں سکھائیں
ملل کو اچھائیاں دکھائیں
وہی تو تھا وہ نبی کہ جس کی بشارتوں کو
خلیل و موسیٰ ذبیح و عیسیٰ نے
اپنے خطبوں کا جزو بنا کر
رضائے رب کی نوید پائی
وہ انبیا و رسل کا ملجا
خدا کا بندہ ہمارا آقا
ہماری خاطر
بڑی بڑی مشکلوں سے گزرا
قناعتوں کا عنایتوں کا
شفاعتوں کا ہدایتوں کا
شرافتوں کا نجابتوں کا
بلاغتوں کا فصاحتوں کا
ملاحتوں کا وہ نوری پیکر
کہ جس نے امت کے سکھ کی خاطر
وطن کو چھوڑا مدینہ آیا
اجاڑ بستی کو لہلہاتا چمن بنایا
محبت و امن و آشتی کا
خلوص و ایثار پیشگی کا
برابری اور دوستی کا
اہنسا اور شانتی کا
نیا نرالا نظام لایا
وہ نیکیوں کا پیام لایا
وہ رحمتیں سب کے نام لایا
پھر ایک ایسا بھی وقت آیا
وہ نوری پیکر
جو ایک مہاجر کے روپ میں
اپنے گھر سے نکلا
اسی نے فاتح کا تاج پہنا
ہزاروں قدوسیوں کا لشکر لیے
وہ اپنے وطن کو لوٹا
کمان والا امان والا
بہت ہی اونچے نشان والا
وہ انبیاء و رسل کا ملجا
خدا کا بندہ ہمارا آقا
کہ جس کے صدقے
خدا نے تکمیلِ دیں کا مژدہ ہمیں سنایا
یہی وہ دینِ محمدی تھا
کہ جس کا کلمہ
ابو البشر نے بھی
جنتِ عدن میں پڑھا تھا
یہی تھے وہ مصطفیٰ کہ جن کو
تمام نبیوں نے اور رسولوں نے
اپنا مولیٰ امام مانا
پڑھیں نہ کیوں ہم درود ان پر
درود ان پر سلام ان پر
کہ جن کے ہونے سے ہم ہوئے ہیں
جو وہ نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا
ہے ان کے ہونے سے سب کا ہونا
کرم ہے ربِ عظیم کا یہ
ہے اس کا احساں ہمارے اوپر
کہ ہم سیہ کار کور بختوں کو
اپنے پیارے حبیب کا امتی بنایا
وہ انبیاء و رسل کے ملجا
وہ اغنیاء اصفیاء کے مولیٰ
خدا کے بندے ہمارے آقا
ہم ان کو نورانی بارگہ میں
ہزار سجدے کریں تو کم ہے
مگر شریعت
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا