فضل ہے شاہ و گدا سب پہ ہی یکساں تیرا
جھولی خالی نہ کبھی لے گیا منگتا تیرا
رَو میں رہتا ہے سخاوت کا یہ دریا تیرا
واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
قمر و شمس ہوں قربان وہ چہرہ تیرا
نور ہی نور ہے وہ جلوہء زیبا تیرا
دونوں عالم پہ ہے چھایا ہوا سایہ تیرا
دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا
تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرہ تیرا
مرتبہ نبیوں میں ہے افضل و اعلیٰ تیرا
نور مسجودِ ملائک ہے نرالا تیرا
بادشہ سر پہ رکھیں پاک وہ جوتا تیرا
اغنیا پلتے ہیں در سے وہ ہے باڑا تیرا
اصفیا چلتے ہیں سر سے وہ ہے رستہ تیرا
کور دل عظمت و برکت تری کیا پہچانیں
جو ہیں شیطان کے پیرو وہ تجھے کیا مانیں
رفعتیں تیرے لیے تیرے لیے سب شانیں
فرش والے تری شوکت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا
رب ہے معطی میں ہوں قاسم یہ ہے تیرا فرمان
جس کا کوئی نہیں اس کو بھی ملے تیری امان
انبیا جس سے مدد لیں وہ رسولِ ذی شان
آسمان خوان زمیں خوان زمانہ مہمان
صاحب خانہ لقب کس کا ہے تیرا تیرا
آئے ہیں در پہ ترے دل میں لیے حزن و ملال
دشمنوں سے ہیں ترے چاہنے والے بے حال
ڈگمگاتے ہوئے قدموں کو شہِ دیں سنبھال
تیرے ٹکڑوں پہ پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
پاؤں سب ولیوں کی گردن پہ وہ ہے شانِ رفیع
قدرتِ حق سے ملا رتبہء عالی و وسیع
بندہء مقتدر و قادر و قیوم و سمیع
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا