ملا جس کو شرف معراج کی شب حق کی دعوت کا

ملا جس کو شرف معراج کی شب حق کی دعوت کا

پتہ چلتا ہے جس کی شخصیت سے رب کی عظمت کا

ہوا ہے نور جس کا باعثِ ایجاد خلقت کا

محمد مظہرِ کامل ہے حق کی شان عزت کا

نظر آتا ہے اس کثرت سے کچھ انداز وحدت کا


خدا نے جس کو فرمایا ہے اپنے نور سے پیدا

نہ تھا پہلے نہ ہوگا اب جہاں میں کوئی اس جیسا

وہ جس کی جوت سے روشن ہوا ہر طبقہء دنیا

گنہ مغفور دل روشن خنک آنکھیں جگر ٹھنڈا

تعالی اللہ ماہِ طیبہ عالم تیری طلعت کا


محمد جس سے راضی ہوں خدا بھی اس سے ہو راضی

بیاں توصیف کیا ہو ہم سے اس رحمت سراپا کی

ہے ذاتِ مصطفیٰ لاریب نعمت حق تعالی کی

نہ رکھی گل کے جوشِ حسن نے گلشن میں جا باقی

چٹکتا پھر کہاں غنچہ کوئی باغ رسالت کا


وہ جس کے در سے عاصی شاد کام و شادماں لوٹیں

گنہ گار اس کا نامِ پاک لے کے نار سے چھوٹیں

وہ جس کے فضل کی دھومیں مچی ہیں ہر دوعالم میں

صفِ ماتم اٹھے خالی ہو زنداں ٹوٹیں زنجیریں

گنہ گارو چلو مولیٰ نے در کھولا ہے جنت کا


خدا کے حکم سے جبریل جن کی ایڑیاں چومیں

کہ جن کا نام سنتے ہی تمامی انبیا جھومیں

فرشتے عرش پر دیدار کی حسرت لیے گھومیں

خمِ زلفِ نبی ساجد ہے محراب دو ابرو میں

کہ یا رب تو ہی والی ہے سیہ کارانِ امت کا


گنہ گاروں خطاواروں کو آقا تم سنبھالو گے

بدوں کو اپنی کالی کالی چادر میں چھپالو گے

جنہیں تم آتشِ دوزخ میں جلنے سے بچالو گے

جنہیں محشر میں تا حشر امتی کہہ کر پکارو گے

ہمیں بھی یاد کر لو ان میں صدقہ اپنی رحمت کا


مجھے جس دم مرے احباب تنہا چھوڑ کر جائیں

تو میری قبر میں یارب محمد مصطفیٰ آئیں

مرے آقا مجھے بس اپنا ہی دیدار کروائیں

الٰہی منتظر ہوں وہ خرامِ ناز فرمائیں

بچھا رکھا ہے فرش آنکھوں نے کم خوابِ بصارت کا


کہیں نظمی تم ان کے گیت گانے سے نہ رک جانا

رسولوں کی یہ سنّت ہے محمد ہی کے گن گانا

ہمیشہ یاد رکھنا اعلیٰ حضرت کا یہ فرمانا

رضائے خستہ جوش بحرِ عصیاں سے نہ گھبرانا

کبھی تو ہاتھ آجائے گا دامن ان کی رحمت کا

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

کیا بیاں ہو شان نظمی گلشن برکات کی

فضل ہے شاہ و گدا سب پہ ہی یکساں تیرا

اتعلیٰ کہوں کہ اذکیٰ و اتقیٰ کہوں تجھے

نبی رازدارِ جلی و خفی ہے

ہے کلامِ پاک میں مدحت رسول اللہ کی

نام ہے جس کا بڑا جس کی بڑی سرکار ہے

تمہارے در پہ عقیدت سے سر جھکائے فلک

حسن خود ہووے دل و جاں سے نثارِ عارض

جانِ رحمت کے انوکھے وہ نیارے گیسو

عالم ہے مشک بیز بہ عطرِ جمال گل