تمہارے در پہ عقیدت سے سر جھکائے فلک

تمہارے در پہ عقیدت سے سر جھکائے فلک

تمہارے کوچے کی گلیاں ہیں پار ہائے فلک

قدم تمہارے پڑیں جھوم جھوم جائے فلک

تمہارے ذرے کے پرتو ستار ہائے فلک

تمہارے لال کی ناقص مثل ضیائے فلک


ورائے عرش وہ سردارِ انس و جاں پہنچا

خدا کے پاس خدا کا وہ رازداں پہنچا

بلندیوں کو نہ اس کی کوئی گماں پہنچا

سرِ فلک نہ کبھی تا بہ آستاں پہنچا

کہ ابتدائے بلندی تھی انتہائے فلک


سفر حرم سے ہوا تا بہ مسجدِ اقصیٰ

بہ جسم و روح یہ کون عرش سے پرے پہنچا

یہ معجزہ مرے آقا کا تھا بحکمِ خدا

یہ ان کے جلوے نے کیں گرمیاں شبِ اسریٰ

کہ جب سے چرخ میں ہیں نقرہ و طلائے فلک


خزانے رکھتے ہیں دونوں جہاں کے شاہِ زمن

مہکتے ہیں عرقِ مصطفیٰ سے سارے چمن

وہ رحمتوں کا خزانہ وہ نعمتوں کی بھرن

مرے غنی نے جواہر سے بھر دیا دامن

گیا جو کاسہء مہ لے کے شب گدائے فلک


وفورِ حبِ نبی نے کرامتیں بھر دیں

حسّانِ ثانی رضا سا کوئی کہیں بھی نہیں

ہر ایک شعر ہے لاریب شہد سے شیریں

رضا یہ نعتِ نبی نے بلندیاں بخشیں

لقب زمینِ فلک کا ہوا سمائے فلک

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

اتعلیٰ کہوں کہ اذکیٰ و اتقیٰ کہوں تجھے

نبی رازدارِ جلی و خفی ہے

ہے کلامِ پاک میں مدحت رسول اللہ کی

ملا جس کو شرف معراج کی شب حق کی دعوت کا

نام ہے جس کا بڑا جس کی بڑی سرکار ہے

حسن خود ہووے دل و جاں سے نثارِ عارض

جانِ رحمت کے انوکھے وہ نیارے گیسو

عالم ہے مشک بیز بہ عطرِ جمال گل

رشکِ صد عرش ہے جو آج وہ قبہ دیکھو

سونے دیتی نہیں فرقت کی یہ ریناں ہم کو