سونے دیتی نہیں فرقت کی یہ ریناں ہم کو

سونے دیتی نہیں فرقت کی یہ ریناں ہم کو

مضطرب رکھتی ہے اک آتشِ پنہاں ہم کو

زندگی جس کے بنا ہے تپِ ہجراں ہم کو

یاد میں جس کی نہیں ہوشِ تن و جاں ہم کو

پھر دکھا دے وہ رخ اے مہر فروزاں ہم کو


جس کو اللہ نے دی عظمتِ لا متناہی

جس کے کوچہ پہ ہو قربان گلی جنت کی

جس کی نکہت سے ہیں سرشار رسول اور ولی

جس تبسم نے گلستاں پہ گرائی بجلی

پھر دکھا دے وہ ادائے گلِ خنداں ہم کو


عرق جسم مطہر سے کھلیں صد گل زار

رخِ گلگوں سے شفق مانگ کے لایا ہے نکھار

جس کے رخسار کی تابش سے زمانے میں بہار

پردہ اس چہرہء انور سے اٹھا کر اک بار

اپنا آئینہ بنا اے مہِ تاباں ہم کو


جس لطافت سے ہے مخلوقِ دوعالم سرشار

جس تبسم سے ہویدا ہیں خدا کے انوار

لبِ محبوب پہ یاقوت کرے جان نثار

پردہ اس چہرہء انور سے اٹھا کر اک بار

اپنا آئینہ بنا اے مہِ تاباں ہم کو


کور دل صاحب کشف اور کرامت ہوجائے

نامہء بختِ سیہ کے لیے برکت ہو جائے

ان کی بس ایک نظر باعث رحمت ہو جائے

گر لبِ پاک سے اقرارِ شفاعت ہوجائے

یوں نہ بے چین رکھے جوششِ عصیاں ہم کو


دیدِ بستانِ نبی ہے فقط ارماں میرا

یعنی ان آنکھوں سے دیکھوں درِ پاک آقا کا

ہے یہ عالم غمِ ہجراں میں دلِ مضطر کا

میرے ہر زخمِ جگر سے یہ نکلتی ہے صدا

اے ملیحِ عربی کر دے نمک داں ہم کو

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

تمہارے در پہ عقیدت سے سر جھکائے فلک

حسن خود ہووے دل و جاں سے نثارِ عارض

جانِ رحمت کے انوکھے وہ نیارے گیسو

عالم ہے مشک بیز بہ عطرِ جمال گل

رشکِ صد عرش ہے جو آج وہ قبہ دیکھو

جنت سے بھی بڑھ کر ہے ہمیں ارضِ مدینہ

اے جلوہء رب کے نشاں نور خدائے دو جہاں

شجر و برگ و حجر شمس و قمر دم یہ ان کا ہی بھرا کرتے ہیں

دونوں عالم مِلک جن کی اور غذا نان جویں

صاحب علم و حکمت پہ لاکھوں سلام