جنت سے بھی بڑھ کر ہے ہمیں ارضِ مدینہ
آقا جو نظر کردیں تو مل جائے خزینہ
نام ان کا زباں پر ہو تو تر جائے سفینہ
واللہ جو مل جائے مرے گل کا پسینہ
مانگے نہ کبھی عطر نہ پھر چاہے دولہن پھول
خود حسن بھی نازاں ہو وہ ایسی ہے ملاحت
بے سایہ بدن ہے مرے مولیٰ کی کرامت
صدقہ میں ملی ان کے چمن زار کو نکہت
دل بستہ و خوں گشتہ نہ خوشبو نہ ملاحت
کیوں غنچہ کہوں ہے مرے آقا کا دہن پھول
وہ پاؤں کہ جن کی ہے سرِ عرش رسائی
وہ ہاتھ کہ جن پر ہے فدا ساری خدائی
رخسار کی سرخی تو شفق نے بھی نہ پائی
دندان و لب و زلف و رخ شہ کے فدائی
ہیں درِّ عدن لعلِ یمن مشکِ ختن پھول
واللیل ہے قرآں میں لقب زلفِ دوتا کا
والفجر بھی انداز ہے محبوبِ خدا کا
والشمّس ہے عنواں رخِ اقدس کی ضیا کا
دل اپنا بھی شیدائی ہے اس ناخنِ پا کا
اتنا بھی مہِ نو پہ نہ اے چرخِ کہن پھول
آرام سے لیٹے ہیں جہاں صاحبِ معراج
وہ گنبدِ خضریٰ کہ دوعالم کا ہے سرتاج
وہ آبرو جنت کی وہ فردوس کی ہے لاج
کیا غازہ ملا گردِ مدینہ کا جو ہے آج
نکھرے ہوئے جوبن پہ قیامت کی پھبن پھول
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا