دین کا مجرم تھا وہ
ہر عقیدے اور مذہب سے اسے انکار تھا
ہر برائی اس کی عادت بن گئی تھی
دوسروں پر ظلم کرنا
اپنوں غیروں کو ستانا
جبر و استبداد کی قربان گاہ پر
بے گناہ معصوم لوگوں کو چڑھانا
قتل کرنا لوٹنا
ہر طرح کی جعل سازی
اس کی رگ رگ میں سمائی
دین کا مجرم تھا وہ
ہر صداقت اور دیانت سے اسے انکار تھا
حشر میں میزان پر اعمال جب تلنے لگے
اگلی پچھلی امتوں کے نامہء اعمال جب کھلنے لگے
وہ بھی آیا
اپنے بائیں ہاتھ میں
اپنی بد اعمالیوں کا ایک سیاہ دفتر لیے
جب ترازو پر چڑھا
پلّہ گناہوں کا جھکا
سب یہی سمجھے کہ رب کا حکم ہوگا
اے فرشتو یہ ہے نافرمان بندہ
ڈال دو اس کو جہنم میں ہمیشہ کے لیے
سب کو حیرت تب ہوئی
جب حکم ربی یہ ہوا
اے فرشتو میرے اس محبوب بندے کو
ادب سے لے چلو
جنت الفردوس میں داخل کرو
اس کو یہ اعزاز کیوں حاصل ہوا؟
ایک دن یہ جارہا تھا
قتل و خوں کے اپنے معمولات پر
اس نے دیکھا
پارچہ تورات کا
اصل نسخہ سے الگ ہو کر زمیں پر تھا پڑا
اس نے کی عزت کلام اللہ کی
اور پرزہ وہ کتاب اللہ کا
جھک کر اٹھایا اپنے ہاتھوں سے اسے
دھول سے ستھرا کیا
اس نے دیکھا
آیتیں تورات کی ہیں
اور ان میں تذکرہ ہے اس نبی کا
جو ہے فخرِ انبیا
اور حبیبِ کبریا
جس کا اسمِ پاک احمد ہے لکھا تورات میں
دیکھ کر اسمِ مقدس اس رسولِ پاک کا
سر جھکایا اور بوسہ لے لیا
اس پرزہء تورات کا
دین کا مجرم تھا وہ
ہر عقیدے اور مذہب سے اسے انکار تھا
ہر صداقت اور دیانت سے تھی اس کی دشمنی
لیکن اس نے کی جو تعظیمِ رسولِ ہاشمی
وہ ادا اس کی خدائے پاک کو بھی بھا گئی
حکم تھا دوزخ کا اس کے واسطے
پر اسے جنت میں داخل کر دیا
نامِ احمد کی یہی تاثیر ہے
اس کی برکت سے بدل جاتا ہے قسمت کا لکھا
جب یہودی کے لیے
اسمِ محمد کی یہ برکت ہے
تو پھر ہم تو ہیں ان کے امتی
ان کے غلام
اے خدا اسمِ محمد کی ہمیں برکت عطا کر
اپنے اس پیارے نبی کے عشق کے دولت عطا کر
لمحہ لمحہ ان کی یادوں کی ہمیں نعمت عطا کر
ان کے اہلِ بیت اور اصحاب کی چاہت عطا کر
تجھ سے ہم اتنی سی منت مانتے ہیں
ہم کو پیارے مصطفیٰ کی دید کی لذت عطا کر
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا