غارِ حرا کی کالی چٹانیں

غارِ حرا کی کالی چٹانیں

بھوری اور مٹیالی چٹانیں


کس کے نور سے روشن ہو گئیں

پتھریلی ہریالی چٹانیں


نوری نغمہ غارِ حرا پر اقرا کی صورت گونجا تھا

پھر فاران کی چوٹی سے اک سورج نکلا


نور سراپا بشری جامہ

لاہوتی انداز لیے


صادق اور امین کے نام سے جانا جاتا

نوری پیکر


وحدت کا پیغام لیے

لات و منات و ہبل کے گھر میں


الا اللہ کا نعرہ لے کر پہنچا تھا

اس کو اپنوں نے ٹھکرایا


خون کے رشتے ہوگئے اس کے خون کے پیاسے

مکہ چھوٹا کعبہ چھوٹا


رب نےدیا تھا حکمِ ہجرت

دونوری فانوس چلے پھر


یثرب کی اندھیاری بستی روشن کرنے

ایک نبی تھا ایک ولی تھا


صادق اور صدیق بہم تھے

منزل منزل رکتا


قافلہ نورانی اپنی منزل یعنی مدینہ پہنچا

یثرب نامی اجڑی بستی


ان کی خاکِ کفِ پا پا کر

مثلِ گلستاں سر سبز و شاداب ہوگئی


امن کی دھوپ سنہری نکھری

پیار محبت بھائی چارے کی میٹھی میٹھی سی دھڑکن


ہر دل کی میراث بن گئی

دوئم سالِ ہجرت میں کعبے کی جانب قبلہ بدلا


مکے کے کالے دل والے شیطانی منصوبے لے کر

پریم کی اس بستی کو مٹانے


پوری طاقت سے چڑھ دوڑے

سبز پوش سالار کے پیرو


ہاں ہاں وہ مٹھی بھر مومن

سچ اور جھوٹ کا فرق بتانے


اتر پڑے تھے بدر کے ریتیلے میداں میں

خرمے کی سوکھی شاخیں تلوار بن گئیں


آسمان سے اترا پھر ملکوتی لشکر

نوری فوجی پرے جمائے


رب کے فضل و کرم پر شاکر

شوقِ شہادت دل میں سجائے


اپنے آقا کے قدموں میں قرباں ہوجانے کا جذبہ

من میں سموئے


جم گئے ڈٹ گئے

باطل کی بنیادیں ہل گئیں


مسلم لشکر فاتح بن کر گھر کو لوٹا

بدلے کے جذبے نے مکے والوں کو پھر سے اکسایا


سارے قبیلے ایک ہوگئے

احد کے میداں میں دونوں لشکر دوبارہ جنگ کو اترے


نوری لشکر ایک طرف تھا

ایک طرف تھا ناری لشکر


سب نے ایک انہونی دیکھی

نوری لشکر کے دستے کی غلطی سے


ساری جیت ہار میں بدلی

ناری لشکر بھاگ چلا تھا واپس پلٹا


کچھ پل پہلے جو فاتح تھے

اگلے پل مغلوب ہوئے وہ


آقا کے محبوب چچا حمزہ نے احد میں

جامِ شہادت نوش کیا


آقا کے دندان مبارک کو زک پہنچی

مولیٰ نے پھر سے اپنے لشکر کو سمیٹا


رزم گاہ کا نقشہ بدلا

فتح و ظفر کی ٹھنڈی چھاؤں میں نوری لشکر


کلمہء طیب کا پرچم لہراتا طیبہ واپس آیا

غزوہء خندق میں آقا نے


اپنے ہاتھ سے خندق کھودی

قریش و یہود عرب کے قبائل


بارہ ہزار کا لشکر لے کر

ایک ماہ تک گھیرے رہے مسلم لشکر کو


آخر پھوٹ پڑی دشمن میں

سردی کا موسم تھا پھر بھی


ایسا طوفاں آیا کہ خیموں کی طنابیں اکھڑ گئیں

اور گھوڑے چھوٹے


دشمن کا سامانِ رسد بھی ختم ہوگیا

گھیرا ٹوٹا


دشمن اپنے گھر کو لوٹا

چھٹا سال ہجرت کا تھا جب


ماہِ ذی قعدہ میں آقا

چودہ سو اصحاب کو لے کر


عمرے کی نیت سے نکلے

مکہ سے نو میل ادھر سرکار حدیبیہ پر اترے


موسمِ گرما پیاس کی شدت

کنویں کا پانی ختم ہوگیا


فخرِ دوعالم نے پانی کی کلی

ڈالی حدیبیہ کے کنویں میں


خالی کنواں لبریز ہوگیا

یہی جگہ تھی


جہاں نبی کے دستِ مبارک سے لہرائے

نور کے چشمے


پانی کے برتن میں بہا دریائے رحمت

پھر ظہور میں آیا


حدیبیہ کا مشہور معاہدہ

جس کے کاتب مولا علی تھے


پیارے نبی نے اپنے صحابی حضرت عثماں کو

خط دے کر مکہ بھیجا


مکہ والوں نے عثماں کو زیرِ حراست روکے رکھا

اس اثنا افواہ اڑی


کہ حضرت عثماں مکہ میں مقتول ہوگئے

ایک ببول کے پیڑ کے نیچے


سرکارِ طیبہ نے اپنے سارے صحابہ سے بیعت لی

بیعتِ رضواں جو کہلائی


یَدُ اللہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ قرآں میں مذکور ہوا

پھر ہفتم سالِ ہجرت میں


غزوہء خیبر پیش آیا تھا

اللہُ اکبر خَرِبَتْ خَیْبَر


یہ نعرہ تھا زبانِ نبی پر

قومِ یہود کے سات قلعے


نوری لشکر نے فتح کر لیے

کوہ قموص پہ ایک قلعہ تھا


عرب کے زورآور مرحب کا

مولیٰ علی کو فتح کا پرچم سالارِ اعظم نے سونپا


فضلِ خدا تائیدِ نبی سے

شیرِ خدا نے بابِ خیبر جڑ سے اکھاڑا


ہشتم سالِ ہجرت کے ماہِ رمضاں کی

دس تاریخ کو سرورِ عالم


غزوہء فتحِ مکہ کی تیاری کر کے گھر سے نکلے

دس ہزار کا نوری لشکر


پرچم فتح و ظفر کا لے کر

ہو ہی گیا مکہ میں داخل


رحمتِ عالم نے اعدائے دین کو عام معافی دے دی

پھر سرکار نے غسل کیا ہتھیار سجائے


اپنی چہیتی اونٹنی قصوا پر جلوہ افروز ہوئے

اپنے غلام اسامہ کو بھی اپنے ساتھ بٹھایا


کوکبہ نبوی پوری شان و شوکت سے

سوئے کعبہ روانہ ہوا


دائیں بائیں آہن پوش صحابہ کا جھرمٹ تھا

بیت اللہ میں داخل ہو کر


آنحضرت نے سب سے پہلے

بوسہ دیا حجرِ اسود کو


پھر اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے بیت اللہ کا طواف کیا

کعبے کے گرد اور اوپر تھا


تین سو ساٹھ بتوں کا قبضہ

سیدِ عالم نے ایک لکڑی ہاتھ میں لے کر


سارے بتوں کو دیا ٹہوکا

جَایءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِل


اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقَا

ایک ایک بت یہ نعرہ سن کر


گرتا تھا اوندھا منہ کے بل

پھر آقا نے کعبہ کا دروازہ کھولا


ہر جانب تکبیر پکاری

پھر کعبے کے دروازے کے بازو پکڑ کر


قریش کے بارے میں اعلانِ عفو کیا

رحمتِ عالم کی رحمت اور شفقت سب پر کھل کر برسی


دسواں برس ہجرت کا آیا

حجِّ وداع ادا فرمایا


اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ کا عرفہ میں سندیسہ پایا

گیارھواں سال ربیع الاول


بارھواں روز دو شنبہ تھا جب

نورِ ازل کے جلوہء اول نے


انسانی آنکھوں سے پردہ فرمایا

مولیٰ علی نے غسل دیا جسدِ اطہر کو


حجرہء بی بی صدیقہ میں دفن ہوئے

صورت اور سیرت میں یکتا


کامل حسن کا اکمل پیکر

روئے مبارک نورِ الٰہی کا آئینہ


اتنا منور اتنا روشن تھا

کہ جنابِ صدیقہ نے اس کی چمک میں


کھوئی ہوئی سوئی ڈھونڈ نکالی

پیٹھ کے پیچھے دیکھنے والی سرمگیں آنکھیں


قوتِ بینائی ایسی کہ شرق و غرب کو یکساں دیکھیں

لمبی اور باریک بھنویں تھیں


دور سے یوں لگتا تھا جیسے جڑی ہوئی ہیں

دونوں بھنووں کے بیچ ایک رگ تھی


جو غصہ کی حالت میں حرکت میں آتی

اور تن جاتی


بینی اقدس لمبی حسیں اور بیچ میں ابھری

اور بُنِ بینی پر اک نور درخشاں


جو اس کی بلندی کا ضامن تھا

حضرتِ حسّاں نے پیشانی کے بارے میں یہ فرمایا


'کالی رات میں جب بھی آپ کی پیشانی ظاہر ہوتی

تو تاریکی کے روشن چراغ کے مثل چمکتی


ہر دو گوش مبارک کامل و تام تھے اس محبوبِ خدا کے

قوتِ بصر کے مثل خدا نے قوت سمع بھی عمدہ بخشی


اسی لیے تو اپنے صحابہ سے فرماتے

تم وہ دیکھ نہیں سکتے جو مجھ کو نظر آ جاتا ہے


اور جو کچھ میں سن لیتا ہوں

وہ تم نہیں سن سکتے ہو کبھی


میں افلاک کی آوازیں بھی سن لیتا ہوں

دہن مبارک لگتا تھا نوری سانچے میں ابھی ابھی


ڈھل کر نکلا ہے

رخسارِ سرکارِ دو عالم جیسے دو نورانی پیالے


دنداں ہائے پیشیں تھے روشن اور تاباں

جب کلام فرماتے تو دندانِ مبارک میں سے


نور نکلتا دکھتا

جب ہنس دیتے دیواریں روشن ہو جاتیں


وہ لبِ شیریں

جن پہ گماں ہو باغِ ارم کے سب سے حسیں


گل کی پتی کا

حضرت مسعود انصاری کی بیٹیوں نے


سرکار کا جوٹھا اک دن کھایا

مرتے دم تک ان کے منہ سے


خوشبو کے فوارے چھوٹے

کوئی منہ کی بیماری ان کو نہ ہوئی پھر آخر دم تک


تھا اکسیر لعابِ دہنِ مبارک ان کا

زخمی اور بیماروں کو


مولیٰ علی کی دکھتی آنکھیں

اسی لعاب سے خیبر کے دن اچھی ہوگئیں


ایسی اچھی جیسے کبھی کچھ ہوا نہیں تھا

غارِ ثور میں صدیقِ اکبر کے پاؤں میں


سانپ نے کاٹا

درد کی شدت اتنی بڑھی


کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوگئے

آقا نے فوراً ہی زخم پہ اپنا لعابِ دہن لگایا


چشمِ زدن میں زخم بھر گیا

درد کی شدت ختم ہوگئی


بدر کے روز رفاعہ بن رافع کی آنکھ میں

تیر لگا تھا


سرورِ عالم نے فوراً ہی

آنکھ کے زخم میں اپنا لعابِ دہن لگایا


اور دعا کی

ساری اذیت دور ہو گئی


آنکھ بھی ہوگئی پہلے جیسی

آپ کے خادم انس کے گھر میں ایک کنواں تھا


آپ نے اپنا لعابِ دہن اس کنویں میں ڈالا

پانی ایسا شیریں ہوا


کہ طیبہ بھر میں اس سے بڑھ کر

کوئی میٹھا کنواں نہیں تھا


امِّ معبد نے فرمایا :

" آپ کی باتیں میٹھی میٹھی


حق کیا ہے اور باطل کیا ہے

اس کا فرق بتانے والی


نہ حد سے کم نہ حد سے زیادہ

گویا لڑی سے گرتے موتی "۔


خوش آواز تھے میرے آقا

مستورات گھروں میں بیٹھی


سارا خطبہ سن لیتی تھیں

گردنِ اقدس اتنی حسیں اور اتنی سبک تھی


لگتا تھا چاندی میں ڈھلی ہے

دستِ مبارک


ریشم و دیبا سے بھی زیادہ نرم و نازک

ایک مصافحہ جو کر لیتا


دن بھر ہاتھ میں خوشبو پاتا

جس بچے کے سر پر آقا اپنا دستِ مبارک رکھتے


وہ خوشبو میں اوروں سے ممتاز ہی رہتا

یہ وہی دستِ کرم تھا


کہ کبھی کوئی سائل

آپ کے در سے خالی ہاتھ نہ واپس لوٹا


یہ وہی دستِ شفا تھا

جس کے لمس نے بیماروں کو شفا دی


یہی مبارک ہاتھ تھا

جس کی ایک انگلی کے اشارے سے


دو ٹکڑے چاند ہوا تھا

حضرت ابیض ابن حمال کے چہرے پر تھا داد پرانا


ایک روز آنحضرت نے ان کو بلوایا

اپنا دستِ شفا ان کے چہرے پر پھیرا


شام نہ ہونے پائی کہ وہ اچھے ہوگئے

جنگِ احد میں ابو قتادہ کی ایک آنکھ کا


ڈیلا نکل کے آن پڑا رخسار کے اوپر

آقا نے ان کو بلوایا


اپنے دستِ مبارک سے ڈیلے کو

آنکھ کے خول میں واپس رکھا


اور لعابِ دہن لگایا

فوراً ہی آرام آگیا


سینہء اقدس

اسرارِ ربانی کا ایک گنجینہ تھا


اپنے قلبِ شریف کی نسبت خود سرکار نے

فرمایا ہے


"آنکھ مری سو جاتی ہے پر دل کو نیند نہیں آتی ۔"

پشت مبارک ایسی صاف و سفید


کہ پگھلائی ہوئی چاندنی لگتی تھی

بیچ میں دونوں شانوں کے تھا


گوشت کا ایک نورانی ٹکڑا

ابھرا ابھرا


جی ہاں ! یہی تھی مہرِ نبوت

ہر دو پائے مبارک ان کے


ہاں ہاں ڈھلے نوری سانچے میں

قدمِ اقدس پتھر کے سینے میں اپنی جگہ بناتا


اور جب ریت پہ چلتے تو

کوئی بھی نشان نہ ظاہر ہوتا


یہ وہی قدمِ مبارک ہیں کہ قیامِ شب میں

ورم کر آتے


یہ وہی قدم مبارک ہیں

کہ مکہ اور بیت المقدس کو


ان سے ملا تھا شرف زائد

یہی وہ پاک قدم ہیں جنھوں نے


اسریٰ کی شب

عرش سے آگے منزل کی تھی


تھے سرکار میانہ قد مائل بہ درازی

لاکھوں کے مجمع میں سب سے بلند نظر آیا کرتے تھے


سایہ نہ تھا جسم انور کا

آپ نے اپنے رب سے ایک دعا یہ مانگی :


" اے اللہ تمام اعضا اور جہات میں

نور عطا کر مجھ کو "


ختمِ دعا پر یہ فرمایا

وَ اجْعَلْنِيْ نُوْراً ۔ اور مجھ کو نور بنا دے


آپ کا سایہ نہ ہونے میں یہ حکمت تھی

کہ آپ کے سائے کو کوئی کافر


کر نہ سکے پامال کبھی بھی

رنگ مبارک گورا تھا اور روشن و تاباں


سرخی مائل

بعض جگہ سرکار کو گندم گوں لکھا ہے


جلد مبارک نرم اور خوشبودار تھی اتنی

مشک بھی ہیچ تھی جس کے آگے


والدہء سرکار نے دی ہے اس کی شہادت

مشک و عبیر سے خوش تر تھی سرکار کی خوشبو


خوشبودار پسینہ تھا سرکار کا ایسا

ایک صحابی گھر کو لے گئے بوتل بھر کے


ان کی بیٹی اسے لگاتی

خوشبو سارے اہل مدینہ کو مل جاتی


یہ گھر" خوشبو والوں کا گھر " دور دور مشہور ہوگیا

امِ سلَیم پسینہ اطہر کو بوتل میں بھر لیتی تھیں


تا کہ ان کے بچے پائیں اس سے برکت

جس کوچے سے آپ گزرتے


وہ تا دیر معطر رہتا

لوگ سمجھ لیتے کہ یہاں منبع نور و نکہت گزرا


مکھی آپ کے اعضا اور کپڑوں پہ نہ بیٹھی

اور نہ کبھی جوں نے ایذا دی


جن چوپایوں پر سرکار سواری کرتے

پاسِ ادب سے وہ چوپائے


بول و براز سے پاک ہی رہتے ۔

بال نہ تو گھنگرو والے تھے


اور نہ بالکل سیدھے سادے

بیچ میں ناف اور گردن کے بالوں کا ایک باریک سا خطہ تھا


دونوں بازو شانوں اور سینے کے بالائی حصے میں

بال تھے زیادہ


آنحضرت کو تہہ بند چادر اور قمیص بے حد پسند تھی

یمن کی دھاری دار چادروں سے رغبت تھی


آپ نے ساری عمرِ اقدس

کبھی نہ پہنا پاجامہ


اونی جبہ شامیہ اکثر پہنا کرتے

بعض اوقات عمامہ میں تحنیک بھی کرتے


یعنی ایک پیچ بائیں جانب سے

تھوڑی کے نیچے سے لا کر سر مبارک پر لپیٹتے


عمامہ اکثر سیاہ رنگ کا ہوتا

جس کا شملہ


کبھی تو ہوتا کبھی نہ ہوتا

نعلینِ اقدس چپل کی صورت تھیں


ہر اک کے دو دو تسمے دوہری تہہ والے

آنحضرت کی ذاتِ اقدس


خلقِ عظیم کی ساری انواع و اقسام کی جامع تھی

ابراہیمی حلم و سخاوت


اسماعیلی صدق وعدہ

شکرِ داؤد عزمِ سلیماں


صبرِ ایوب شانِ کلیمی

اور دمِ عیسیٰ


یہ اوصاف و محاسن رب نے

نبیوں کے سردار کو بخشے


حضرت سعد نے آنحضرت کے خلق کی بابت پوچھا

تو بی بی صدیقہ نے فرمایا :


" پیارے نبی کا خلق تھا قرآں"

ارشاد صدیقہ کا مفہوم یہ ہے


کہ مصحفِ پاک میں جتنے بھی اخلاقِ حمیدہ ذکر ہوئے ہیں

وہ سب کےسب آنحضرت کی ذاتِ اقدس میں شامل تھے


خلق اور خلق میں وہ سب نبیوں سے افضل تھے

کس میں تھا علم ان کے جیسا


اور کس میں ان کا سا کرم تھا

سرورِ عالم صبر و حلم و عفو کا منبع


رحمت اور شفقت کا دریا

حسنِ سلوک کے سچے مبلغ


سب سے بڑھ کر متواضع تھے

جود و سخا ایثار میں یکتا


قوت عزم و استقلال و شجاعت میں بھی

سب سے برتر سب سے اعلیٰ


زہد و ریاضت خوف و عبادت

صدق و عدالت، عہدِ وفا میں سب سے افضل


عفت و عصمت شرم و حیا میں سب سے اچھے

معجزات دیگر نبیوں کو


الگ الگ تھے رب نے بخشے

وہ سب کے سب جمع ہوئے ذاتِ احمد میں


سب سے بڑا اعجاز نبی کا قرآں ہی ہے

ان کے رب نے انہیں بلایا


اسریٰ کی شب عرش سے آگے

انگلی کے بس ایک اشارے سے


دو ٹکڑے چاند ہو گیا

مولیٰ علی کی عصر کی خاطر


ڈوبا ہوا سورج پلٹایا

حضرت جابر کی دعوت میں


مردہ بکری اور جابر کے مردہ بچوں کو

پھر سے زندہ فرمایا


سرکش اونٹ نے آپ کے آگے

پیشانی سجدے میں رکھی


شیر بھیڑیا بکری پتھر اور درخت

سارے کے سارے فرماں بردار اور مطیع تھے پیارے نبی کے


غیب کا علم دیا تھا رب نے

ابن عمرِ سے یہ مروی ہے


سرور عالم نے فرمایا

" رب نے ساری دنیا میرے سامنے رکھ دی


میں دنیا کو اور قیامت تک اس میں

پیش آنے والے سارے حوادث کو


اس طرح دیکھ رہا ہوں

جیسے میرے سامنے ہے میری یہ ہتھیلی "۔


سید عالم نے فرمایا

" میری امت اول سے آخر تک


مجھ پر پیش کی گئی

میرے لیے بنوائی گئیں مٹی اور پانی سے سب شکلیں


اور مجھ کو دکھلائی گئیں

جتنا تم پہچانتے ہو اپنے ساتھی کو


اس سے کہیں بہتر میں ہر فردِ امت سے واقف ہوں"۔

لوح و قلم کا علم آپ کے علم میں شامل


ذات و صفات باری تعالیٰ کے

اسرار و معارف کا وہ گنجینہ ہیں


یوم الست میں سب سے پہلے آقا ہی نے بلیٰ کہا تھا

عرش کے پایوں پر حوروں کے سینوں پر


جنت کے محلوں اشجارِ فردوس کے پتّوں

اور فرشتوں کے چشم و ابرو پر ان کا نام لکھا ہے


جس نے حضور کو خواب میں دیکھا

اس نے بے شک آپ کو دیکھا


کیونکہ شیطاں آپ کی صورت بن نہیں سکتا

حضور کی قبر شریف ہے افضل


کعبہ سے اور عرشِ علا سے

قبر شریف پہ ایک فرشتہ


رب کی طرف سے متعیّن ہے

جو امت کے درود آپ تک پہنچاتا ہے


صل اللہ علیہ وسلم

نظمی پڑھتے رہیے ہر دم


یہی رضائے رب کی ضمانت

یہی شفاعت کا پروانہ


یہی ہے قبر کی سختی سے بچنے کا طریقہ

صل اللہ علیہ وسلم


یہی تو جنت کی کنجی ہے

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

میری سانسوں میں تم دل کی دھڑکن میں تم

میں تھا اور مری تنہائی تھی تنہائی بس تنہائی

ان کی رفعت کا شاہد ہے عرشِ علا

طیبہ رشک جناں خلد زار اللہ اللہ اللہ

افق افق تھیں ظلمتیں

غارِ حرا کی کالی چٹانیں

خدا کا بندہ ہمارا آقا

دین کا مجرم تھا وہ

یا نبی سلام علیک

نور نوری کا ہمیں نوری بناتا جائے گا