افق افق تھیں ظلمتیں

افق افق تھیں ظلمتیں

شفق شفق ضلالتیں


نگر نگر تھیں بدعتیں

ڈگر ڈگر کدورتیں


برہنگی کی رسم ہی

عبادتوں کی جان تھی


وہ جنگ کے حلیف تھے

وہ امن کے حریف تھے


وہ خلوتوں کے راہزن

وہ نفرتوں کے پاسباں


عداوتوں کے تھے امیں

یہ تھے وہی عرب کہ جو


ادب کے شہسوار تھے

زباں پہ ان کو ناز تھا


وہ کہتے اپنے آپ کو

کہ ہم ہیں بولتے ہوئے


ہمارے آگے دوسرے سبھی

ہیں گونگے بے زباں


وہ اپنی بے حیائیوں کو

شعر روپ ڈھالتے


وہ اپنی بدقماشیوں کو فخر سے

بڑوں کی محفلوں میں سب کے روبرو اچھالتے


تھیں ان کے پاس کاروبار کی سبھی مہارتیں

مگر اسی کے ساتھ ساتھ


قبیح سے قبیح تر تھا ان کا طرزِ زندگی

جہالتوں کی چھاؤں میں


ضلالتوں کی بانہوں میں

گزر رہی تھی زندگی


انہی میں کچھ شریف تھے

جنہیں خدا کا خوف تھا


خلیل اور ذبیح کا وہ عالی خاندان تھا

اسی شریف خاندان میں


بی بی آمنہ کے گھر

وہ پاکباز آگئے


جو عرشیوں کی جان تھے

وہ مصطفیٰ وہ مجتبیٰ


وہ مرتضیٰ وہ حق نما

کہ جن کا نام ساقِ عرش پر


جلی حروف میں تھا منسلک خدا کے نام سے

نبی وہ تب بھی تھے کہ جب


وجودِ آدمی نہ تھا

انہی کے نام کو دوام بخشنے کے واسطے


خدائے ذوالجلال نے

یہ کائنات خلق کی


خدا کے بندے وہ بھی تھے

مگرمقامِ بندگی میں منفرد


نہ ان کے جیسا اور کوئی بندہ تھا نہ ہے نہ ہو

تبھی تو مصطفیٰ تھے وہ چنے ہوئے


خدا نے ان کے ذکر پاک کو بلند تر کیا

کلامِ رب میں جا بجا انہی کی نعت درج ہے


انھوں نے کائنات کو

سکھایا طرز زندگی


امانتوں میں منفرد

صداقتوں کے منتہی


شریعتوں کے پاسباں

ہدایتوں کی آبرو


انہی کے نام کی گئیں شفاعتیں

انہی کے دستِ پاک کو عطا ہوئیں کرامتیں


انہی کی پیروی کو اصلِ بندگی کہا گیا

انہی کے عشق کو کمالِ زندگی کہا گیا


سماج کو نیا مزاج

امن و آشتی کا راج


اخوت و برابری کا زرنگار تاج

انہی کے در سے ہی ملا


بلال ہوں، صہیب ہوں، اسامہ ہوں کہ زید ہوں

علی حسین اور حسن کو ان پہ برتری نہ تھی


مساویانہ مرتبہ کا بے مثال فلسفہ

نہ مشرقی کے پاس تھا


نہ مغربی کے پاس ہے

کھجور کی چٹائی پر کیے گئے وہ فیصلے


نہ جانے کتنی قوموں اور راجیوں کو

زندگی کا سَنوِدھان دے گئے


جو کہہ گئے وہ حکم ہے

جو کر گئے وہ ضابطہ


شریعتیں انہیں میں گُم

طریقتیں انہی میں ضم


ہدایتیں انہی کے گھر کی بھیک ہیں

شفاعتوں پہ ان کا حق


حرام اور حلال پر انہی کا کلی اختیار

وہ رحمتوں کی جان ہیں


وہ راحتوں کی کان ہیں

شرافتوں نجابتوں کرامتوں


صداقتوں عدالتوں سخاوتوں

شجاعتوں سیادتوں شہادتوں


ولایتوں پہ ہے انہی کا دبدبہ

وفا، صفا ، ولا، عطا ، سخا ، حیا ، انھی کے گھر کی چیز ہے


قرآن ان کا معجزہ

حدیث جس کا تکملہ


وہ شانِ رب نشانِ رب

وہ ربِّ کائنات کے حبیب بھی قریب بھی


نبی، ولی، صفی، نجی، سخی، غنی، جلی خفی

جسے جسے بھی جو ملا


انہی کے فیض سے ملا

جوان کی ہاں تو رب کی ہاں


جو ان کی نا تو رب کی نا

یہ مرتبہ یہ دبدبہ یہ غلغلہ


مگر ہے پھر بھی سادگی

نشست میں قیام میں


مکان میں عوام میں

صیام میں طعام میں


حیاتِ پاک کی ہر ایک طرزِ خاص و عام میں

وہ عفو و در گذر کہ بدترین دشمنوں کو بھی


عطا کریں معافیاں

وہ حلم و انکسار کہ جو ایک بار دیکھ لے


غلام عمر بھر رہے

وہ خُلقِ پاک آپ کا


قرآن میں ڈھلا ہوا

امانتوں، دیانتوں میں بے نظیر


وہ عظمتوں میں بے مثال

وہ رفعتوں کی انتہا


وہ قدرتوں میں باکمال

حسین وہ جمیل وہ وجیہہ وہ شکیل وہ


وکیل وہ کفیل وہ

ملیح وہ صبیح وہ شفیع وہ رفیع وہ


انہی کے حسن پاک سے جہاں کو رونقیں ملیں

انہی کی خاکِ پا فلک کی مانگ جگمگا گئی


ستاروں کی یہ روشنی رہینِ نوراحمدی

یہ مہر و ماہ بحر و بر شجر حجر


فرشتے جنّ و انس سب

انہی کے دم کی برکتیں


حلیمہ بی سے پوچھیے

کہ کیسا بچپنا تھا وہ


ان آمنہ کے لعل کا

جو ایک طرف کا دودھ پی کے


دوسری طرف کا دودھ چھوڑ دیتے

اپنی پیاری بہن کو


جو دخترِ حلیمہ تھیں

یہ کیسا بے نظیر عدل، یہ کیسا بے مثال خُلق


قریش کے ستم شعار

حالتِ نماز میں طرح طرح سے چھیڑتے


کبھی تو خاردار جھاڑیاں بچھاتے راہ میں

کبھی تو پشتِ پاک پر انڈیلتے غلاظتیں


مگر وہ منبعِ کرم نہ دیتے بددعا کبھی

ہمیشہ دستِ پاک اٹھا کے رب سے کی یہی دعا


الٰہی میرے خانداں کے لوگ مجھ کو جانتے نہیں

تُو اپنے فضل سے انہیں ہدایتوں کی بھیک دے


یہ کیسا لاجواب رحم ! یہ کیسا عالی ظرف حلم!

حدیبیہ کے بعد جب کہ فاتحانہ شان سے


یہ حق پرست کارواں

دخیل مکہ مکرمہ ہوا


تو ظلم کی گھٹائیں ساری چھٹ گئیں

قریش کو یہ ڈر ہوا


کہ لشکرِ محمدی بنے گا آج منتقم

گذشتہ ظلم و زیادتی کے


ایک ایک پل کا اب حساب لیں گے فاتحان

مگر وہ رحمتِ کبیر


امیرِ عفو و در گذر

خدا کے حکم سے رحیم اور کریم بن گئے


ہر ایک خاص و عام کو امان بخش دی گئی

یہ کیسی لاجواب اماں یہ کیسا بے مثال رحم


یہ کیسا بے نظیر عدل

پھر ایک بار یوں ہوا


صحابہء کرام میں سے

بعض نے کیں بھوک کی شکایتیں


نبی نے کچھ نہیں کہا

ہٹادی پیٹ سے عبا


یہ دیکھا حاضرین نے

کہ جس کے دستِ پاک میں


عطا خدا نے کی ہے دو جہاں کی مِلک

اسی کے نوری پیٹ پر


ہے ایک سِل بندھی ہوئی

حبیبِ رب نے عمر بھر


نہ کھائی نان گندمی

بس ایک نانِ جو رہی غذا تمام زندگی


یہ سادگی کی بات تھی

قناعتوں کا درس تھا


وہ بادیہ نشیں نبی

کہ جن کے پاس دو جہاں کا راج تھا


وہ اپنے دستِ پاک سے

خود اپنے جوتے گانٹھتے


وہ نوریوں کے رہ نما

وہ تاجدارِ انبیا


لباس بوریئے کا ہاتھ سے سلا ہوا

پہنتے جسمِ پاک پر


یہ سادگی کا درس تھا

قناعتوں کی بات تھی ۔


وہ صادق و امیں لقب

امانتوں دیانتوں کے تاجور


جو مکہ چھوڑتے ہوئے

علی کے پاس اپنے پاس کی سبھی امانتیں رکھا گئے


وہ پائی پائی کا حساب

مکہ سے روانگی سے قبل ہی چکا گئے


امانتوں کا پاس تھا

دیانتوں کا تھا لحاظ


اسی نبی کی تربیت کا تھا یہ ایک خاصّہ

صحابہء کرام اپنی زندگی کے فیصلے


خدا رسول کی رضا پہ چھوڑتے

وہ قول و فعل و حال میں


حضور ہی کے اتباع کو سمجھتے روحِ زندگی

اسی لیے حضور نے


صحابہء کرام کو ستاروں سے مثال دی

ہدایتوں کی اصل کا مقام دے دیا


یہ وہ نفوسِ قدسیہ تھے

جن کی زندگی کا ایک ایک پل تھا


وقف بندگی

رسول کی یہ آل تھے


اور ان کے اہل بیت بھی

جبھی تو ہر نماز میں تحیتہ و ثنا کے ساتھ


ان نفوسِ قدسیہ صحابہء کرام پر

درود بھیجتے ہیں ہم


یہ وہ نفوسِ قدسیہ تھے

جن کی زندگی کا ایک ایک پل وقف بندگی ۔


غلام ہوں تو ایسے ہوں

بلال حبشی ایک طرف


صہیب رومی ایک طرف

اسامہ زید ایک طرف


عتیق، عمر، غنی، علی، حسن، حسین ایک طرف

یہ وہ نفوسِ قدسیہ تھے


جن کی ایک ایک سانس وقفِ خدمتِ نبی رہی

جنہوں نے اپنے رات دن


نبی پہ کر دیے نثار

فنا ہوئے بقا ملی


تھے ان میں دس صحابہ خوش نصیب

جن کو جیتے جی بشارتِ جناں ملی


عذاب سے اماں ملی

اسی لیے تو رب کے بندگانِ قرب پر


سلام بھیجتے ہیں ہم

نبی پہ بھی سلام ہو


علی پہ بھی سلام ہو

ولی پہ بھی سلام ہو


سلامتی کا کارواں یوں ہی رواں دواں رہے

رضائے مصطفیٰ ملے


عطائے مصطفیٰ ملے

ردائے مصطفیٰ کے نوری سائے میں


الٰہی سارے سنیوں کو سیدھا راستہ چلا

نبی ولی کا راستہ


صفی نجی کا راستہ

وہ راستہ جو سچ کی سلطنت کی شاہراہ ہو


کہ جس کے اک سرے پہ ہوں

رضائے حق کی وادیاں


اور اُس کنارے پر ہو عشقِ مصطفیٰ کا گلستاں

شگفتگی کلی کلی


بہار ہی بہار ہو

ثنائے مصطفیٰ کا پر شکوہ سلسلہ


ہمارے دل کی دھڑکنوں کے ساتھ ساتھ ہی چلے

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

اپنا وجود بھول جا عشقِ نبی میں جھوم جھوم

میری سانسوں میں تم دل کی دھڑکن میں تم

میں تھا اور مری تنہائی تھی تنہائی بس تنہائی

ان کی رفعت کا شاہد ہے عرشِ علا

طیبہ رشک جناں خلد زار اللہ اللہ اللہ

غارِ حرا کی کالی چٹانیں

خدا کا بندہ ہمارا آقا

دین کا مجرم تھا وہ

یا نبی سلام علیک

نور نوری کا ہمیں نوری بناتا جائے گا