اشکوں سے بولتے ہیں جو لوگ لب سے چپ ہیں
ہم بھی اُنھیں میں شامل اس در پہ کب سے چپ ہیں
زخموں کو سی رہے ہیں آنسو بھی پی رہے ہیں
عشقِ نبی کی لذّت پائی ہے جب سے چپ ہیں
پیشِ نظر جنید اور ہیں بایزید جن کے
ہر سانس ان کی گم ہے اتنے ادب سے چپ ہیں
جو حال ہے ہمارا اُن پر کھُلا ہے سارا
ہر دم نظر ہے ان کی ، ہم اس سبب سے چپ ہیں
عشقِ نبی کا دعویٰ ہر اِک زبان پر ہے
اس حادثہ کے باعث عشّاق کب سے چپ ہیں
یہ ڈھنگ گفتگو کا تم نے ادیبؔ پایا
لکھ لکھ کے کہہ دیا سب اور خود ادب سے چپ ہیں
شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری
کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب