اشکوں سے بولتے ہیں جو لوگ لب سے چپ ہیں

اشکوں سے بولتے ہیں جو لوگ لب سے چپ ہیں

ہم بھی اُنھیں میں شامل اس در پہ کب سے چپ ہیں


زخموں کو سی رہے ہیں آنسو بھی پی رہے ہیں

عشقِ نبی کی لذّت پائی ہے جب سے چپ ہیں


پیشِ نظر جنید اور ہیں بایزید جن کے

ہر سانس ان کی گم ہے اتنے ادب سے چپ ہیں


جو حال ہے ہمارا اُن پر کھُلا ہے سارا

ہر دم نظر ہے ان کی ، ہم اس سبب سے چپ ہیں


عشقِ نبی کا دعویٰ ہر اِک زبان پر ہے

اس حادثہ کے باعث عشّاق کب سے چپ ہیں


یہ ڈھنگ گفتگو کا تم نے ادیبؔ پایا

لکھ لکھ کے کہہ دیا سب اور خود ادب سے چپ ہیں

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

دیگر کلام

نعمت ربِّ رحمت پہ لاکھوں سلام

مثلِ جمال روئے تو شمس کجا قمر کجا

میں فقیر کوئے رسول ہوں

نصیب چل مجھے لے چل پئے سلامِ حبیب

نبی کا نام جو میں ایک بار لیتا ہوں

آیات والضحیٰ میں فترضیٰ تمہی تو ہو

انہی کی بزم میں گذرے ہیں صبح و شام مرے

عشق کی منزل عشق کا رہبر

میرے افکار ہیں پروردۂ دربارِ رسول

اِک نعت لکھی ہے ہم نے بھی