چہرہ ہے والضحیٰ تو سخن دل پذیر ہے

چہرہ ہے والضحیٰ تو سخن دل پذیر ہے

واللہ تیریؐ زلف کا عالم اسیر ہے


آقاؐ ترےؐ پسینے کی خوشبو سے آج تک

حیران مشک و عنبر و عود و عبیر ہے


خلاقِ دوجہاں کا ہے توؐ ایسا شاہکار

ثانی کوئی مثال نہ تیریؐ نظیر ہے


دنیا میں قبر و حشر میں اور پل صراط پر

دونوں جہاں میں توؐ ہی مرا دستگیر ہے


کونین کا ہے والیؐ مگر سادگی تو دیکھ

کمخواب ہے نہ تن پہ لباسِ حریر ہے


تیرےؐ بغیر نبضِ زمانہ رُکی رہی

یعنی تراؐ وجود بہت ناگزیر ہے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراط ِ نُور

دیگر کلام

درِ مصطفیٰؐ کا گدا ہوں میں

حشر میں بھی یہ بھرم میرا بنائے رکھنا

درِ نبیؐ پہ بٹ رہی ہیں صبح و شام رفعتیں

پلکوں پہ برستے ہوئے ساون کی جھڑی ہے

کم نصیبوں کو ملے نوری سہارا یا نبیؐ

مرا ذوقِ سفر محوِ سفر ہے

گھٹا نے منہ چھپا لیا گھٹا کو مات ہو گئی

جان ہیں آپؐ جانِ جہاں آپؐ ہیں

کتنے حسیں ہیں گیسو و رُخسارِ مصطفیٰؐ

یا نبیؐ کھولیے زبانِ کرم