گرشاہِ دو عالم کے سہارے نہیں ہوتے

گرشاہِ دو عالم کے سہارے نہیں ہوتے

امت کے بھی یوں وارے نیارے نہیں ہوتے


پھر چاند کہاں ٹوٹ کے جڑتا مرے آقا

گر آپ کی انگلی کے اشارے نہیں ہوتے


سرکار کی نگری کا بیاں حسن ہو کیسے

ایسے تو کہیں اور نظارے نہیں ہوتے


جی جان فدا کر دے جو حرمت پہ نبی کے

اس پیار کے سودے میں خسارے نہیں ہوتے


اے شاہِ اُمم دَر پہ بلا لیجیے خدارا!

اب دور مدینے سے گزارے نہیں ہوتے


محشر میں نہ ہو سکتی گنہ گار کی بخشش

گر سیدِ ابرار ہمارے نہیں ہوتے


ملتی نہ اگر نور کی خیرات فلک کو

یہ شمس و قمر اور ستارے نہیں ہوتے


اے ناز کرم ہم پہ ہے محبوبِ خدا کا

ورنہ تو حسیں بخت ہمارے نہیں ہوتے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

بے حد و انتہا ہے برکت درود کی

کرم کی ایسی بہار آوے

قرآن میں ہے ساقیٔ کوثر حضور ہیں

مرے لب پر شہِ بطحا کی نعتوں کے ترانے ہیں

مشقِ سخن کی رفعتِ گفتار کے سبب

سوئے بطحا کبھی میرا سفر ہو

آہٹ ہوئی کہ آمدِ سرکار ہو گئی

نظر ہوئی جو حبیبِ داور

حضوری کا بنے کوئی بہانہ یا رسول اللہ

ذکرِ حبیبِ پاک دِلوں کا سرور ہے