آہٹ ہوئی کہ آمدِ سرکار ہو گئی

آہٹ ہوئی کہ آمدِ سرکار ہو گئی

گل کھل گئے تو روح بھی سرشار ہوگئی


رخصت ہوئی جو تیرگی جگمگ ہوئی فضا

کُھل کر پھر آج بارشِ انوار ہو گئی


ہم عاصیوں کے بگڑے مقدر سنور گئے

ہم پر نگاہِ سیدِ ابرار ہو گئی


مرجھا چکا تھا غم سے مری زیست کا شجر

اس کی ہر ایک شاخ ثمر بار ہو گئی


یادِ نبی کو جب سے ہے دل میں بسا لیا

بے رنگ زندگی گل و گلزار ہو گئی


جب بھی تڑپ کے عرض کی آقا بلا یئے

پھر ناز تیری حاضری ہر بار ہوگئی

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

قرآن میں ہے ساقیٔ کوثر حضور ہیں

مرے لب پر شہِ بطحا کی نعتوں کے ترانے ہیں

مشقِ سخن کی رفعتِ گفتار کے سبب

گرشاہِ دو عالم کے سہارے نہیں ہوتے

سوئے بطحا کبھی میرا سفر ہو

نظر ہوئی جو حبیبِ داور

حضوری کا بنے کوئی بہانہ یا رسول اللہ

ذکرِ حبیبِ پاک دِلوں کا سرور ہے

شبِ سیاہ میں پُرنور ماہِ تمام آیا

یہ کرم ہے ربِ کریم کا مرے لب پہ ذکرِ رسول ہے