سوئے بطحا کبھی میرا سفر ہو

سوئے بطحا کبھی میرا سفر ہو

مری منزل ہی آقا کا نگر ہو


وہ جن رستوں سے ہوں سرکار گزرے

انہی رستوں سے میرا بھی گزر ہو


ہوں میرے سامنے روضے کے جلوے

ہر اک لمحہ زیارت میں بسر ہو


دیوانہ وار میں گلیوں میں گھوموں

نہ دنیا کی نہ اپنی کچھ خبر ہو


میں چوموں خاک اُن راہوں کی ہر دم

یہی بس کام اک شام و سحر ہو


تمنا ہے یہیں دم میرا نکلے

مری آہوں میں اتنا تو اثر ہو


ہیں ذرّے بھی درخشاں جس زمیں کے

اسی دھرتی پہ میرا مستقر ہو


مقدر رنگ لائے ناز کا گر

جبیں میری ، نبی کا سنگِ در ہو

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

کرم کی ایسی بہار آوے

قرآن میں ہے ساقیٔ کوثر حضور ہیں

مرے لب پر شہِ بطحا کی نعتوں کے ترانے ہیں

مشقِ سخن کی رفعتِ گفتار کے سبب

گرشاہِ دو عالم کے سہارے نہیں ہوتے

آہٹ ہوئی کہ آمدِ سرکار ہو گئی

نظر ہوئی جو حبیبِ داور

حضوری کا بنے کوئی بہانہ یا رسول اللہ

ذکرِ حبیبِ پاک دِلوں کا سرور ہے

شبِ سیاہ میں پُرنور ماہِ تمام آیا