کرم کی ایسی بہار آوے

کرم کی ایسی بہار آوے کہ مدحِ خیر الانام ہو وے

میں تشنہ لب ہوں مرے خدایا مجھے عطا ایک جام ہو وے


کبھی جو مہکے مرا تخیل بکھیر دوں میں ثنا کی کلیاں

دُرود کی پھر بناؤں مالا یہی مرا صرف کام ہو وے


ولائے احمد کی بھیک مانگوں سرور ہو میری زندگی میں

سجائے راکھوں نبی کی محفل یہی تمنا دوام ہو وے


نہ روشنی کچھ شعور میں ہے نہ روح میں کوئی تازگی ہے

برس پڑیں اب سحابِ رحمت کچھ ایسا بھی اہتمام ہو وے


کروں میں ذکرِ حبیب ہر دم یہی تو بس میری بندگی ہو

اسی وظیفے میں صبح گزرے اسی میں ہر ایک شام ہو وے


جو چمکے تقدیر کا ستارہ تو ناز کی در پہ حاضری ہو

وہیں پہ ہو میرا جینا مرنا وہیں پہ میرا قیام ہو وے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

ہے دل کی حسرت ہر ایک لمحے

رگِ جاں ذکرِ احمد سے بہت سرشار ہوتی ہے

ثنائے مصطفیٰ سے ہو گیا دل کا مکاں روشن

جب سے نگاہِ سیدِ ابرار ہو گئی

بے حد و انتہا ہے برکت درود کی

قرآن میں ہے ساقیٔ کوثر حضور ہیں

مرے لب پر شہِ بطحا کی نعتوں کے ترانے ہیں

مشقِ سخن کی رفعتِ گفتار کے سبب

گرشاہِ دو عالم کے سہارے نہیں ہوتے

سوئے بطحا کبھی میرا سفر ہو