جب سے نگاہِ سیدِ ابرار ہو گئی

جب سے نگاہِ سیدِ ابرار ہو گئی

سوکھی تھی شاخ دل کی ثمر بار ہو گئی


کب سے خزاں رسیدہ تھی یہ زندگی مری

رحمت کے پھول کھل گئے گلزار ہوگئی


اب ہو رہی ہے عشقِ نبی میں بسر حیات

صد شکر میری روح بھی سرشار ہوگئی


جب سے ثنائے سرورِ دیں سے ہوا ہے پیار

الجھی ہوئی جو سوچ تھی ہموار ہو گئی


اک رات آپ خواب میں جلوہ دکھا گئے

قسمت جو سو رہی تھی وہ بیدار ہوگئی


دنیا کی نعمتوں کی بھی چاہت نہیں رہی

بس آپ ہی کے در کی طلب گار ہوگئی


رکھی جبیں جو ناز نے چوکھٹ پہ آپ کی

ایسی چمک پڑی کہ پُر انوار ہو گئی

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

شہرِ سرکار میں جینے کی دعائیں مانگوں

درود اپنے نبی کو پیش کرنا میری عادت ہے

ہے دل کی حسرت ہر ایک لمحے

رگِ جاں ذکرِ احمد سے بہت سرشار ہوتی ہے

ثنائے مصطفیٰ سے ہو گیا دل کا مکاں روشن

بے حد و انتہا ہے برکت درود کی

کرم کی ایسی بہار آوے

قرآن میں ہے ساقیٔ کوثر حضور ہیں

مرے لب پر شہِ بطحا کی نعتوں کے ترانے ہیں

مشقِ سخن کی رفعتِ گفتار کے سبب