ذکرِ حبیبِ پاک دِلوں کا سرور ہے

ذکرِ حبیبِ پاک دِلوں کا سرور ہے

میری نظر میں آپ کے جلووں کا نور ہے


سرکار کی ثنا میں جو کٹتے ہیں رات دن

یہ مجھ پہ سب عنایتِ ربِ غفور ہے


یادوں کے دیپ جل اٹھے دل کے دیار میں

مہکی فضا حرا کی سماں کوہِ طور ہے


طیبہ نگر میں ہر گھڑی بٹتی ہیں نعمتیں

جس سمت دیکھتے ہیں کرم کا ظہور ہے


آئی ہے جس طرف گل و گلزار کر گئی

ایسی ہی با کمال نگاہِ حضور ہے


شہرِ نبی کی شان کی توصیف کیا کریں

ہر گوشہ ہے مہکتا فضا نُور نُور ہے


تو ناز خوش نصیب ہے جب چاہے مانگ لے

صدقہ نبی کی آل کا ملتا ضرور ہے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

گرشاہِ دو عالم کے سہارے نہیں ہوتے

سوئے بطحا کبھی میرا سفر ہو

آہٹ ہوئی کہ آمدِ سرکار ہو گئی

نظر ہوئی جو حبیبِ داور

حضوری کا بنے کوئی بہانہ یا رسول اللہ

شبِ سیاہ میں پُرنور ماہِ تمام آیا

یہ کرم ہے ربِ کریم کا مرے لب پہ ذکرِ رسول ہے

ذکرِ خیر الانام ہو جائے

اک چشمِ عنایت کے آثار نظر آئے

ہو جائے حاضری کا جو امکان یا رسول