اک چشمِ عنایت کے آثار نظر آئے

اک چشمِ عنایت کے آثار نظر آئے

جب مجھ کو تصور میں سرکار نظر آئے


پیکر تھے وفاؤں کے اصحابِ نبی سارے

آقا کی محبت میں سرشارنظرآئے


کیا جشن تھا طیبہ میں سرکار کی آمد پر

جی جان فدا کرتے انصار نظر آئے


طیبہ کی حسیں نگری پُر نور نظارے ہیں

گنبد وہ نظر آیا مینار نظر آئے


بے رنگ تھی یہ دنیا ظلمت کا بسیرا تھا

میلاد کی عید آئی انوار نظر آئے


ان جیسا حسیں کوئی عالم میں نہیں آیا

یوں تو کئی اللہ کے شہکار نظر آئے


اللہ نے یوں کی ہے توصیف محمد کی

آیات میں مدحت کے اظہار نظر آئے


اس ناز پہ آقا کے ہیں جود و عطا بے حد

جب دل سے پکارا تو غم خوار نظر آئے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

حضوری کا بنے کوئی بہانہ یا رسول اللہ

ذکرِ حبیبِ پاک دِلوں کا سرور ہے

شبِ سیاہ میں پُرنور ماہِ تمام آیا

یہ کرم ہے ربِ کریم کا مرے لب پہ ذکرِ رسول ہے

ذکرِ خیر الانام ہو جائے

ہو جائے حاضری کا جو امکان یا رسول

نبی کے دیس کی ٹھنڈی ہوائیں یاد آتی ہیں

کیا خوب ہیں نظارے نبی کے دیار کے

لکھ رہی ہوں نعت میں لے کر سہارا نور کا

سارے عالم میں خدانے آپ کو یکتا کیا