لکھ رہی ہوں نعت میں لے کر سہارا نور کا

لکھ رہی ہوں نعت میں لے کر سہارا نور کا

میری سوچوں پر تو رہتا ہے اجارہ نور کا


آپ کے اوصاف ہیں اللہ کے قرآن میں

کر رہا ہے اُن کی مدحت پارہ پارہ نور کا


مہرو ماہ و کہکشاں میں آپ ہی کا نور ہے

بھیک دے کر آپ نے صدقہ اُتارا نور کا


جلوہ گر ہوتا تھا جو روح الامیں کے سامنے

آپ کے ماتھے پہ چمکا وہ ستارہ نور کا


چھٹ گئے سارے اندھیرے پھیلی ایسی روشنی

آگئے بدر الدجٰی پھوٹا فوارہ نور کا


بحرِ ظلمت کے بھنور میں ڈوبنے کا ڈر نہیں

سامنے ہی مل گیا ہے اَب کنارا نور کا


ہے یہ حسرت بیٹھ جائیں اِن کے در کے سامنے

ہر گھڑی کرتے رہیں پھرہم نظارہ نور کا


نامِ احمد سے ملی ہے میرے دل کو روشنی

بھیک اِن کے نام کی ہے استعارہ نور کا


ناز سے ممکن کہاں تھی شاہِ عالَم کی ثنا

اس کی قسمت پاگئی پھر بھی اشارہ نور کا

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

ذکرِ خیر الانام ہو جائے

اک چشمِ عنایت کے آثار نظر آئے

ہو جائے حاضری کا جو امکان یا رسول

نبی کے دیس کی ٹھنڈی ہوائیں یاد آتی ہیں

کیا خوب ہیں نظارے نبی کے دیار کے

سارے عالم میں خدانے آپ کو یکتا کیا

مجھ کو لے چل مدینے میں میرے خدا

چلتے چلتے مصطفیٰ کے آستاں تک آ گئے

پڑھ لیا قرآن سارا نعت خوانی ہو گئی

میں لکھ لوں نعت جب تو نُور کی برسات ہوتی ہے