میں لکھ لوں نعت جب تو نُور کی برسات ہوتی ہے

میں لکھ لوں نعت جب تو نُور کی برسات ہوتی ہے

تصور میں مرے بس مصطفیٰ کی ذات ہوتی ہے


چھلک جاتے ہیں آنکھوں سے یہ اشکوں کے حسیں موتی

کہ جب سرکار کے لطف و کرم کی بات ہوتی ہے


مَیں اپنے دل کے آنگن میں کبھی محفل سجاتی ہوں

تو میرے چار سو جلوؤں کی اک بارات ہوتی ہے


مرے افکار میں الفاظ ایسے ہی چمکتے ہیں

کہ جیسے تیرگی میں جگمگاتی رات ہوتی ہے


مجھے شعر و سخن کا کچھ سلیقہ تو نہیں آتا

عطا سرکار کی میرے لئے سوغات ہوتی ہے


مَیں مدحت کے لئے الفاظ کے موتی پروتی ہوں

لڑی پیاری سی بن جائے تو ان کی نعت ہوتی ہے


میں نازاں ہوں مقدر پر کہ مِل جاتا ہے بِن مانگے

مری جھولی میں اُن کے فیض کی خیرات ہوتی ہے


سو لے کر سُوت کی اَٹی یہ ہمت ناز نے کر لی

خریداروں میں مفلس کی بھی کیا اوقات ہوتی ہے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

لکھ رہی ہوں نعت میں لے کر سہارا نور کا

سارے عالم میں خدانے آپ کو یکتا کیا

مجھ کو لے چل مدینے میں میرے خدا

چلتے چلتے مصطفیٰ کے آستاں تک آ گئے

پڑھ لیا قرآن سارا نعت خوانی ہو گئی

بس گئی ہے دل میں آقا کی محبت کی مہک

مدینے کی فضائیں مِل گئیں دل کو قرار آیا

بن جاؤں کبھی میں بھی مدینے کی مکیں کاش

ثنائے محمد کی دولت ملی ہے

حَسیں دیار سے نکلوں تو کوئی بات کروں