حَسیں دیار سے نکلوں تو کوئی بات کروں

حَسیں دیار سے نکلوں تو کوئی بات کروں

حرا کے غار سے نکلوں تو کوئی بات کروں


کرم ہوا ہے ، نہیں کوئی بھی خزاں باقی

مَیں اس بہار سے نکلوں تو کوئی بات کروں


ہوں اِس جگہ پہ جہاں کھوٹے سکے چلتے ہیں

مَیں کاروبار سے نکلوں تو کوئی بات کروں


زہے نصیب کہ پایا ہے جس کو طیبہ میں

مَیں اس غبار سے نکلوں تو کوئی بات کروں


ملا جو کیف عجب اور سرور طیبہ میں

میں اس خمار سے نکلوں تو کوئی بات کروں


یہ ناز بھی ہے ثنا گو شہِ مدینہ کی

میں اس شمار سے نکلوں تو کوئی بات کروں

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

میں لکھ لوں نعت جب تو نُور کی برسات ہوتی ہے

بس گئی ہے دل میں آقا کی محبت کی مہک

مدینے کی فضائیں مِل گئیں دل کو قرار آیا

بن جاؤں کبھی میں بھی مدینے کی مکیں کاش

ثنائے محمد کی دولت ملی ہے

کونین میں ہے سیـدِ ابرار کی رونق

نبی کی یاد میں خود کو بُھلائے بیٹھے ہیں

چل پڑے ہیں سوئے طیبہ خود کو مہکائے ہوئے

دل میں سرکار کی یادوں کو بسائے رکھا

مِل جائے مدینے کی فضا اِتنا کرم ہو