نبی کی یاد میں خود کو بُھلائے بیٹھے ہیں

نبی کی یاد میں خود کو بُھلائے بیٹھے ہیں

اِنہی کی ذات سے بس لَو لگائے بیٹھے ہیں


تصورات میں ہر دم انہی کے ہیں جلوے

انہی کے ذکر کی محفل سجائے بیٹھے ہیں


کبھی تو وصل کی شب ہوگی آپ کی آمد

اسی اُمید پہ خود کو جگائے بیٹھے ہیں


گزر تو ہو گا کسی رہ گزر سے آقا کا

ہر ایک راہ میں پلکیں بچھائے بیٹھے ہیں


جمالِ چہرۂ انور جو خواب میں دیکھا

وہی نظارہ نظر میں بسائے بیٹھے ہیں


اے ناز ہو گی مدینے میں حاضری اپنی

دیے اُمید کے ہم تو جلائے بیٹھے ہیں

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

مدینے کی فضائیں مِل گئیں دل کو قرار آیا

بن جاؤں کبھی میں بھی مدینے کی مکیں کاش

ثنائے محمد کی دولت ملی ہے

حَسیں دیار سے نکلوں تو کوئی بات کروں

کونین میں ہے سیـدِ ابرار کی رونق

چل پڑے ہیں سوئے طیبہ خود کو مہکائے ہوئے

دل میں سرکار کی یادوں کو بسائے رکھا

مِل جائے مدینے کی فضا اِتنا کرم ہو

ہو جائے اگر مُجھ پہ عِنایت مرے آقا

سُن کے اقرا کی صداساری فضا کیف میں ہے