ثنائے محمد کی دولت ملی ہے

ثنائے محمد کی دولت ملی ہے

مقدر سے مجھ کو سعادت ملی ہے


یہ احسان ہے مجھ پہ میرے خدا کا

مجھے پنج تن کی محبت ملی ہے


کرم ہو گیا ہے مرے مصطفیٰ کا

کہ اُن سے غلامی کی نسبت ملی ہے


وہ دیکھا ہے پیارا سا دربارِ عالی

کہ روضے کی مجھ کو زیارت ملی ہے


پکارا ہے جب مَیں نے نامِ محمد

مرے قلب و جاں کو بھی راحت ملی ہے


تصدق میں حسنین کے اُن کے دَر سے

کہ جود و سخا کی بھی نعمت ملی ہے


بنایا ہے مالک نے مختار اُن کو

سبھی عاصیوں کو شفاعت ملی ہے


نہ ہو ناز کیوں اپنی قسمت پہ نازاں

کہ دیدار کی اس کو دولت ملی ہے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

پڑھ لیا قرآن سارا نعت خوانی ہو گئی

میں لکھ لوں نعت جب تو نُور کی برسات ہوتی ہے

بس گئی ہے دل میں آقا کی محبت کی مہک

مدینے کی فضائیں مِل گئیں دل کو قرار آیا

بن جاؤں کبھی میں بھی مدینے کی مکیں کاش

حَسیں دیار سے نکلوں تو کوئی بات کروں

کونین میں ہے سیـدِ ابرار کی رونق

نبی کی یاد میں خود کو بُھلائے بیٹھے ہیں

چل پڑے ہیں سوئے طیبہ خود کو مہکائے ہوئے

دل میں سرکار کی یادوں کو بسائے رکھا