بن جاؤں کبھی میں بھی مدینے کی مکیں کاش

بن جاؤں کبھی میں بھی مدینے کی مکیں کاش

قدموں میں بُلا لیں وہ مجھے عرش نشیں کاش


مِل جائیں مقدر سے کبھی وصل کی گھڑیاں

کِھل جائے مسرت سے مرا قلبِ حزیں کاش


پھر شام و سحر دیکھا کروں جلوے حرم کے

اور بیٹھی رہوں گنبدِ خضرا کے قریں کاش


روضے پہ سلامی کی جو مِل جائے سعادت

چوکھٹ پہ جھکاتی رہوں مَیں اپنی جبیں کاش


ہونٹوں پہ دُرودوں کے سلاموں کے ہوں نغمے

اور پیش کروں پھول عقیدت کے حسیں کاش


پھر عمر یہی گزرے ہے یہ ناز کی حسرت

مدفن کو بھی مل جائے جو یہ پاک زمیں کاش

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

چلتے چلتے مصطفیٰ کے آستاں تک آ گئے

پڑھ لیا قرآن سارا نعت خوانی ہو گئی

میں لکھ لوں نعت جب تو نُور کی برسات ہوتی ہے

بس گئی ہے دل میں آقا کی محبت کی مہک

مدینے کی فضائیں مِل گئیں دل کو قرار آیا

ثنائے محمد کی دولت ملی ہے

حَسیں دیار سے نکلوں تو کوئی بات کروں

کونین میں ہے سیـدِ ابرار کی رونق

نبی کی یاد میں خود کو بُھلائے بیٹھے ہیں

چل پڑے ہیں سوئے طیبہ خود کو مہکائے ہوئے