چل پڑے ہیں سوئے طیبہ خود کو مہکائے ہوئے

چل پڑے ہیں سوئے طیبہ خود کو مہکائے ہوئے

آج ہم اپنے مقدر پر ہیں اترائے ہوئے


یوں تو اس قابل نہیں پر ہے کرم سرکار کا

اُن کی چوکھٹ مِل گئی ہم فیض ہیں پائے ہوئے


اَب تو لگتا ہے کہ ہو جائے گی بارش نور کی

بھیگی بھیگی ہے فضا بادل بھی ہیں چھائے ہوئے


جوش میں آ جائے اَب دریائے رحمت آپ کا

بیٹھے ہیں دَر پر بھکاری ہاتھ پھیلائے ہوئے


دید کی حسرت لئے عاشق بڑے بے تاب ہیں

ہو کرم کی اک نظر ہیں دور سے آئے ہوئے


دل کو ذکرِ مصطفیٰ سے کر لیا ہے نور بار

ڈالیاں صل علیٰ کی ساتھ ہیں لائے ہوئے


ناز اک دن چھوڑ کر جانا پڑے گا یہ نگر

اشک بھی تھمتے نہیں اور دل ہیں گھبرائے ہوئے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

بن جاؤں کبھی میں بھی مدینے کی مکیں کاش

ثنائے محمد کی دولت ملی ہے

حَسیں دیار سے نکلوں تو کوئی بات کروں

کونین میں ہے سیـدِ ابرار کی رونق

نبی کی یاد میں خود کو بُھلائے بیٹھے ہیں

دل میں سرکار کی یادوں کو بسائے رکھا

مِل جائے مدینے کی فضا اِتنا کرم ہو

ہو جائے اگر مُجھ پہ عِنایت مرے آقا

سُن کے اقرا کی صداساری فضا کیف میں ہے

مُجھ کو سرکار نے مِدحت میں لگایا ہُوا ہے