دل میں سرکار کی یادوں کو بسائے رکھا

دل میں سرکار کی یادوں کو بسائے رکھا

خود کو بس نعت نگاری میں لگائے رکھا


آپ کے نوُر سے ملتی رہی خامے کو ضیا

اِک دیا آپ کی مدحت کا جلائے رکھا


نامِ احمد کے سوا کچھ نہیں بھاتا مجھ کو

بس اسی نام کو اس دل میں چُھپائے رکھا


آپ آئیں گے کسی روز مرے گھر آقا

اپنی پلکوں کو سرِ راہ بچھائے رکھا


مرکزِ نُور پہ آئے تو ہوئے اشک رواں

اُن کی دہلیز پہ سر اپنا جُھکائے رکھا


عُمر بھر ہوتی رہی لطف و کرم کی بارش

ناز عاصی کو بھی طیبہ میں بلائے رکھا

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

ثنائے محمد کی دولت ملی ہے

حَسیں دیار سے نکلوں تو کوئی بات کروں

کونین میں ہے سیـدِ ابرار کی رونق

نبی کی یاد میں خود کو بُھلائے بیٹھے ہیں

چل پڑے ہیں سوئے طیبہ خود کو مہکائے ہوئے

مِل جائے مدینے کی فضا اِتنا کرم ہو

ہو جائے اگر مُجھ پہ عِنایت مرے آقا

سُن کے اقرا کی صداساری فضا کیف میں ہے

مُجھ کو سرکار نے مِدحت میں لگایا ہُوا ہے

مجھ پر برس رہی ہے رحمت حضور کی