ہو جائے اگر مُجھ پہ عِنایت مرے آقا

ہو جائے اگر مُجھ پہ عِنایت مرے آقا

ہر آن کرُوں آپ کی مِدحت مرے آقا


کرتی رہُوں توصیف میں اُس شہرِکرم کی

اِس دل کی ہے بس ایک ہی حَسرت مرے آقا


گر اذنِ حضُوری ہو تو دربار میں آؤں

اور چوُم لوں میں آپ کی چوکھٹ مرے آقا


جی بھر کے کرُوں گُنبدِ خضرا کا نظارہ

آنکھوں میں بھروں سَبز وہ رنگت مرے آقا


سو جاؤں کسی شب تو کُھلیں میرے مقدر

اورخواب میں ہو جائے زیارت مرے آقا


اِک بار جو دیکھوں رخِ انور کی جَھلک میں

پھر 'ناز کو مل جائے گی راحت مرے آقا

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

کونین میں ہے سیـدِ ابرار کی رونق

نبی کی یاد میں خود کو بُھلائے بیٹھے ہیں

چل پڑے ہیں سوئے طیبہ خود کو مہکائے ہوئے

دل میں سرکار کی یادوں کو بسائے رکھا

مِل جائے مدینے کی فضا اِتنا کرم ہو

سُن کے اقرا کی صداساری فضا کیف میں ہے

مُجھ کو سرکار نے مِدحت میں لگایا ہُوا ہے

مجھ پر برس رہی ہے رحمت حضور کی

نبی کے ذکر کی محفل سجائے بیٹھے ہیں

جلائے رکھتی ہوں دل میں تری ثنا کے چراغ