نبی کے ذکر کی محفل سجائے بیٹھے ہیں

نبی کے ذکر کی محفل سجائے بیٹھے ہیں

دروُد پاک کی شمعیں جلائے بیٹھے ہیں


تمام عُمر کا حاصل ہیں یہ حسیں گھڑیاں

درِ حضوُر پہ ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں


خوشا کہ گنبدِ خضرا نظر کے سامنے ہے

اسی کے نقش کو دل میں بسائے بیٹھے ہیں


کبھی تو لائیں گے تشریف سیدِعالم

ہم اُن کی راہ میں پلکیں بچھائے بیٹھے ہیں


بسی ہے نامِ محمد کی مہک سانسوں میں

انہی کی یاد کو دل سے لگائے بیٹھے ہیں


حروف نعت، تخیل کا اب طواف کریں

’’سو اپنے قلب کو کعبہ بنائے بیٹھے ہیں‘‘


اے ناز اُن کی شفاعت کریں گے شاہِ اُمم

جو بوجھ عصیاں کا بھاری اُٹھائے بیٹھے ہیں

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

مِل جائے مدینے کی فضا اِتنا کرم ہو

ہو جائے اگر مُجھ پہ عِنایت مرے آقا

سُن کے اقرا کی صداساری فضا کیف میں ہے

مُجھ کو سرکار نے مِدحت میں لگایا ہُوا ہے

مجھ پر برس رہی ہے رحمت حضور کی

جلائے رکھتی ہوں دل میں تری ثنا کے چراغ

کر رہی ہوں آپ کی مدحت سرائی یا نبی

ہیں ساری کائنات میں سرکار بے مثال

ہر لمحہ خیالوں میں مدینے کی فضا ہے

گھر میں میلاد منانے میں مزہ آتا ہے