مُجھ کو سرکار نے مِدحت میں لگایا ہُوا ہے

مُجھ کو سرکار نے مِدحت میں لگایا ہُوا ہے

میرے اُفکار پہ اِک نوُر سا چھایا ہُوا ہے


حُجرۂ دل میں جلائی ہے جو توصیف کی لَو

اِس نے دل مطلعٔ انوار بنایا ہُوا ہے


خوش نصیبی ہے کہ روضے کی زیارت کر لی

مُجھ سی کمتر کو بھی طیبہ میں بلایا ہُوا ہے


آپ کے وَصل سے سَر سَبز ہے گُنبد سارا

اِسی رنگت نے اِسے خُوب سجایا ہُوا ہے


کاش طیبہ کی گدائی کا شَرف مل جائے

بس یہی شوق مرے دل میں سمایا ہُوا ہے


ناز عاصی کو بھی رُسوا نہ کیا آقا نے

میرے عیبوں کوبھی کملی میں چھپایا ہُوا ہے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

چل پڑے ہیں سوئے طیبہ خود کو مہکائے ہوئے

دل میں سرکار کی یادوں کو بسائے رکھا

مِل جائے مدینے کی فضا اِتنا کرم ہو

ہو جائے اگر مُجھ پہ عِنایت مرے آقا

سُن کے اقرا کی صداساری فضا کیف میں ہے

مجھ پر برس رہی ہے رحمت حضور کی

نبی کے ذکر کی محفل سجائے بیٹھے ہیں

جلائے رکھتی ہوں دل میں تری ثنا کے چراغ

کر رہی ہوں آپ کی مدحت سرائی یا نبی

ہیں ساری کائنات میں سرکار بے مثال