مِل جائے مدینے کی فضا اِتنا کرم ہو

مِل جائے مدینے کی فضا اِتنا کرم ہو

مقبول ہو میری یہ دُعا اِتنا کرم ہو


سرکار کی چوکھٹ پہ جبیں میری جُھکی ہو

سُن لیں وہ میرے دل کی صدا اتنا کرم ہو


اشکوں کی روانی ہو تو خاموش رہیں لب

سانسیں ہوں میری محوِ ثنا اِتنا کرم ہو


ہو جائے زیارت مُجھے سُلطانِ اُمم کی

مانگوں میں یہی ایک دُعا اِتنا کرم ہو


مدفن میرا ہو جائے جو آقا کے نگر میں

تُربت پہ ہو گنبد کی ضیا اِتنا کرم ہو


مِلتی رہے اب ناز کو خیرات سُخن کی

ہر روز ہو اِک نعت عطا اِتنا کرم ہو

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

حَسیں دیار سے نکلوں تو کوئی بات کروں

کونین میں ہے سیـدِ ابرار کی رونق

نبی کی یاد میں خود کو بُھلائے بیٹھے ہیں

چل پڑے ہیں سوئے طیبہ خود کو مہکائے ہوئے

دل میں سرکار کی یادوں کو بسائے رکھا

ہو جائے اگر مُجھ پہ عِنایت مرے آقا

سُن کے اقرا کی صداساری فضا کیف میں ہے

مُجھ کو سرکار نے مِدحت میں لگایا ہُوا ہے

مجھ پر برس رہی ہے رحمت حضور کی

نبی کے ذکر کی محفل سجائے بیٹھے ہیں