مجھ کو لے چل مدینے میں میرے خدا

مجھ کو لے چل مدینے میں میرے خدا

بیٹھ کر جالیوں کے قریں پھر سدا


میں دُرودوں کی لڑیاں بناتی رہوں

حالِ دل مصطفیٰ کو سناتی رہوں


اپنے اشکوں سے آنکھوں کا کر کے وضو

روضۂ پاک ہو پھر مرے رُو بَرو


مَیں عقیدت کی کلیاں سجاتی رہوں

حالِ دل مصطفیٰ کو سناتی رہوں


کاش ہو جاؤں طیبہ نگر کی مکیں

مجھ کو قدموں میں رکھ لیں وہ سدرہ نشیں


حاضری کو مَیں پھر آتی جاتی رہوں

حالِ دل مصطفیٰ کو سناتی رہوں


ان کی پیاری سی گلیوں میں بھی گھوم لوں

خاکِ طیبہ کو جی بھر کے مَیں چوم لوں


اپنے سوئے مقدر جگاتی رہوں

حالِ دل مصطفیٰ کو سناتی رہوں


کہہ دوں دہلیز پر رکھ کے اپنی جبیں

تھام لیں ناز کو اَب رسولِ امیں


اپنے اندر مَیں پھر جگمگاتی رہوں

حالِ دل مصطفیٰ کو سناتی رہوں

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

ہو جائے حاضری کا جو امکان یا رسول

نبی کے دیس کی ٹھنڈی ہوائیں یاد آتی ہیں

کیا خوب ہیں نظارے نبی کے دیار کے

لکھ رہی ہوں نعت میں لے کر سہارا نور کا

سارے عالم میں خدانے آپ کو یکتا کیا

چلتے چلتے مصطفیٰ کے آستاں تک آ گئے

پڑھ لیا قرآن سارا نعت خوانی ہو گئی

میں لکھ لوں نعت جب تو نُور کی برسات ہوتی ہے

بس گئی ہے دل میں آقا کی محبت کی مہک

مدینے کی فضائیں مِل گئیں دل کو قرار آیا