کیا خوب ہیں نظارے نبی کے دیار کے

کیا خوب ہیں نظارے نبی کے دیار کے

کتنے حسین رنگ ہیں لیل و نہار کے


آئے ہیں جو حضور کے در پر گزار کے

پھرکاش لوٹ آئیں وہی دن بہار کے


دل میں سما گئی ہیں طیبہ کی رونقیں

آنکھوں میں بس گئے ہیں وہ جلوے مزار کے


ذرّے بھی اس زمین کے ہیں مہر و ماہ سے

قرباں مہکتے نور سے گرد و غبار کے


یادوں سے ہے سجی ہوئی یہ دل کی انجمن

بے حد کرم ہوئے ہیں مرے تاجدار کے


سرکار پھر بُلالیں جوقدموں میں ناز کو

کٹتے نہیں یہ لمحے دلِ بے قرار کے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

یہ کرم ہے ربِ کریم کا مرے لب پہ ذکرِ رسول ہے

ذکرِ خیر الانام ہو جائے

اک چشمِ عنایت کے آثار نظر آئے

ہو جائے حاضری کا جو امکان یا رسول

نبی کے دیس کی ٹھنڈی ہوائیں یاد آتی ہیں

لکھ رہی ہوں نعت میں لے کر سہارا نور کا

سارے عالم میں خدانے آپ کو یکتا کیا

مجھ کو لے چل مدینے میں میرے خدا

چلتے چلتے مصطفیٰ کے آستاں تک آ گئے

پڑھ لیا قرآن سارا نعت خوانی ہو گئی