ذکرِ خیر الانام ہو جائے

ذکرِ خیر الانام ہو جائے

عمر یونہی تمام ہو جائے


لب پہ صلِ علیٰ رہے ہر دم

یہ ہی عادت مدام ہو جائے


جس سے آتی ہو خوشبوئے حسّاں

کاش ایسا کلام ہو جائے


مشکبو ہوں تخیلات مرے

نعت لکھنے سے کام ہو جائے


سر پہ رکھ لوں جو نعلِ پاکِ نبی

تاج داروں میں نام ہو جائے


آتے جاتے رہیں مدینے ہم

ایسا کچھ انتظام ہو جائے


ناز ہو حاضری مواجہہ پر

اور درود و سلام ہو جائے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

نظر ہوئی جو حبیبِ داور

حضوری کا بنے کوئی بہانہ یا رسول اللہ

ذکرِ حبیبِ پاک دِلوں کا سرور ہے

شبِ سیاہ میں پُرنور ماہِ تمام آیا

یہ کرم ہے ربِ کریم کا مرے لب پہ ذکرِ رسول ہے

اک چشمِ عنایت کے آثار نظر آئے

ہو جائے حاضری کا جو امکان یا رسول

نبی کے دیس کی ٹھنڈی ہوائیں یاد آتی ہیں

کیا خوب ہیں نظارے نبی کے دیار کے

لکھ رہی ہوں نعت میں لے کر سہارا نور کا