یہ کرم ہے ربِ کریم کا مرے لب پہ ذکرِ رسول ہے

یہ کرم ہے ربِ کریم کا مرے لب پہ ذکرِ رسول ہے

کہیں میٹھا میٹھا سُرور ہے کہیں رحمتوں کا نزول ہے


میں گدائے آلِ رسول ہوں مرے پاس کوئی کمی نہیں

جو ہوئی ہیں اتنی نوازشیں تو یہ فیضِ زہرا بتول ہے


ہوں میں گم جو آقا کی یاد میں ہیں انہی کے نام کی برکتیں

مری دھڑکنوں میں وہی رہیں یہی چاہتوں کا اصول ہے


یہ جو کشتِ دل میں قرار ہے یہ حسین رنگِ بہار ہے

مرے مصطفیٰ کے سبب سے ہے یہ جو باغ ہے یہ جو پھول ہے


ملیں جلوے کوچۂ نور کے یہ دعا ہے نازغریب کی

نہ ہو دید مجھ کو حضور کی تو یہ زندگی بھی فضول ہے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

آہٹ ہوئی کہ آمدِ سرکار ہو گئی

نظر ہوئی جو حبیبِ داور

حضوری کا بنے کوئی بہانہ یا رسول اللہ

ذکرِ حبیبِ پاک دِلوں کا سرور ہے

شبِ سیاہ میں پُرنور ماہِ تمام آیا

ذکرِ خیر الانام ہو جائے

اک چشمِ عنایت کے آثار نظر آئے

ہو جائے حاضری کا جو امکان یا رسول

نبی کے دیس کی ٹھنڈی ہوائیں یاد آتی ہیں

کیا خوب ہیں نظارے نبی کے دیار کے