ہم بھی درِ رسول پہ جاتے تو بات تھی

ہم بھی درِ رسول پہ جاتے تو بات تھی

دل کا اُنہی کو حال سُناتے تو بات تھی


پی کر نبی کے عشق کا جامِ طہور ہم

تشنہ لبی یہ کاش ! بُجھاتے تو بات تھی


اِذنِ قیامِ شہرِ مدینہ کے بعد ہم

مسکن وہ ارضِ پاک بناتے تو بات تھی


دیدار کا اے کاش ! وہ اپنے فقیر کو

سپنوں میں ایک جام پلاتے تو بات تھی


اُسوہ مرے حضور کا، اے کاش ! اُمّتی

اِک مقصدِ حیات بناتے تو بات تھی


اولاد کو جو سرورِ کون و مکان کا

کردار و طرزِ زیست سکھاتے تو بات تھی


ہم پر کرم حضور کا ، کتنا ہوا جلیل

ہر شخص کو یہ بات بتاتے تو بات تھی

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

سروں پہ غم کے تنے ہیں بادل

ہُوا جو اہلِ ایماں پر وہی احسان باقی ہے

ثنائے مُصطفٰے کرنا یہی ہے زندگی اپنی

میرے سنِ شعور کی جب سے کُھلی ہے آنکھ

چَھٹے زمانے سے غم کے سائے جو آپ آئے

میرے دل میں ہے آقا ! قیام آپ کا

جو آنکھوں میں سمو لاتے ہیں جلوے آپْ کے در کے

مُجھ کو سپنے میں ایسا اِشارہ ہوا

وہ اُجالے جو نورِ نبی سے ہوئے

در پہ آ کر کھڑا ہے بھکاری شہا