جو آنکھوں میں سمو لاتے ہیں جلوے آپْ کے در کے
اُنہیں ازبر سے ہو جاتے ہیں رستے آپْ کے در کے
قطاروں میں کھڑے ہیں دست بستہ مانگنے والے
سبھی شاہ و گدا آقا ! ہیں منگتے آپْ کے در کے
دلِ مُضطر کو چَین آتا سو ہوتی آنکھ بھی ٹھنڈی
وہ نظّارے مرے آقا ! جو کرتے آپْ کے در کے
وہ آنکھیں بند جو ہوتیں تو فوراً ڈُبڈُبا جاتیں
مناظر جو تصوّر میں اُبھرتے آپْ کے در کے
عمارت بھی وہی لیتے ، جہاں گُنبد نظر آتا
سو گھنٹوں دیکھتے رہتے وہ جلوے آپْ کے در کے
جدھر دیکھا ، جسے دیکھا ،اسے ہم نے مگن پایا
سبھی کی تھے زباں پر بس قصیدے آپْ کے در کے
جلیل اے کاش یوں ہوتا کہ روضے تک پہنچ جاتے
تو پھر ہم سامنے جا کر اُترتے آپْ کے در کے
شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل
کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت