در پہ آ کر کھڑا ہے بھکاری شہا

در پہ آ کر کھڑا ہے بھکاری شہا ! اِس کے ملجا و ماوٰی حضور آپ ہیں

کس کو جا کر سناتا یہ دکھڑے بھلا اِس کا واحد سہارا حضور آپ ہیں


آپ کا جو ہوا وہ خُدا کا ہوا ، آپ ہی کی رضا میں خُدا کی رضا

جس کو مانگا خُدا سے ہر اک نے سدا، بس وہی سیدھا رستہ حضور آپ ہیں


صحنِ اقصٰی میں ہیں صف بہ صف انبیا ٕ اور وہاں اُن کے آقا بنے مقتدا

رشک کرتے ہیں جن پر سبھی انبیا بس وہی عالی رُتبہ حضور آپ ہیں


آپ کا نُطقِ عالی خُدا کا کہا ،آپ نے جو بھی چاہا خُدا نے دیا

جن کی مرضی پہ اُن کا خُدا مرحبا ! خود بدلتا ہے قبلہ حضور آپ ہیں


ہر شفاعت کا منصب مرے مُصطفٰے ، حشر میں آپ ہی کو ودیعت ہوا

آپ نے جس کو چاہا وہ بخشا گیا ، مغفرت کا حوالہ حضور آپ ہیں


آ رہی ہے مدینے سے ٹھنڈی ہوا جس سے قائم ہے سانسوں کا یہ سلسلہ

آپ کے در کی نسبت سلامت رہے ، رحمتوں کا خزانہ حضور آپ ہیں


بحرِ عصیاں میں ہے میری کشتی اڑی،چل رہی ہیں مخالف ہوائیں بڑی

ہم غُلاموں پہ جس وقت مشکل پڑی،جس نے مشکل کو ٹالا حضور آپ ہیں


انبیا و رُسُل کو ملے معجزے ، شاہِ کونین ہیں سر بسر معجزہ

حُسنِ یُوسف بھی ہیں اور دمِ عیسوی ، حاملِ دستِ بیضا حضور آپ ہیں


ہے جلیل اِس پہ نازاں مرے چارہ گر ! آپ نے اِس کو بخشا ثنا کا ہُنر

کیجیے اِس پہ آقا ! کرم کی نظر ،اِس کا تنہا وسیلہ حضور آپ ہیں

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

ہم بھی درِ رسول پہ جاتے تو بات تھی

میرے دل میں ہے آقا ! قیام آپ کا

جو آنکھوں میں سمو لاتے ہیں جلوے آپْ کے در کے

مُجھ کو سپنے میں ایسا اِشارہ ہوا

وہ اُجالے جو نورِ نبی سے ہوئے

ہر گھڑی وردِ صلِّ علیٰ کیجئے

رونق ہو زندگی کی اِس میں بہار تُم سے

رنج و الم کا ہر گھڑی گرچہ وفور ہے

زائر جو بھی شہرِ مدینہ اپنے گھر سے جاتے ہیں

ارضِ طیبہ میں اِک بار جائے کوئی