ارضِ طیبہ میں اِک بار جائے کوئی
در سے ملتا ہے کیا کیا ، بتائے کوئی
ایسا ممکن نہیں ہے سوا آپ کے
دُشمنوں کو گلے سے لگائے کوئی
سر پہ رکھتے ہیں دستِ تسلّی وہی
اپنے دُکھڑے جو اُن کو بتائے کوئی
در پہ آئے کو خالی نہ موڑا کبھی
اِک سخی اُن کے جیسا تو لائے کوئی
ڈوبے سُورج کو موڑے ، قمر توڑ دے
یہ سِوا ان کے کر کے دکھائے کوئی
ٹکٹکی باندھ کر اُس کو تکتا ہوں میں
لوٹ کر جب مدینے سے آئے کوئی
کوئی لڑتے سقایت پہ صدیوں تلک
جام اُلفت کا اُن کو پلائے کوئی
نام حیدر کا سُن کر یہ دیکھا گیا
کوئی خوش ہے مگر تِلملائے کوئی
کوئی پڑھتا ہے مُصحف کو محراب میں
نوکِ نیزہ پہ چڑھ کر سُنائے کوئی
ما سِوا ابنِ حیدر ، بھلا کون ہے
کربلا میں جو کُنبہ کٹائے کوئی
چل جلیل ! اُن کے در سے پیام آ گیا
کاش ! مُژدہ یہ آ کر سُنائے کوئی
شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل
کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت