جہاں بھی ہونے لگتی ہیں گُل و گُلزار کی باتیں

جہاں بھی ہونے لگتی ہیں گُل و گُلزار کی باتیں

مرے لب پر مچلتی ہیں ، مرے سرکار کی باتیں


اُنہی کے گھر پہ ہوتا ہے نزولِ رحمتِ باری

جو کرتے ہیں سدا گھر میں شہِ ابرار کی باتیں


قمر شق ہو اشارے سے، وہ موڑیں ڈوبتا سُورج

ہیں کیا کہنے تصرّف کے ! ہیں کیا مُختار کی باتیں


غموں نے جن کو مارا ہے، رہے دُنیا کی ٹھوکر پر

لبوں پر اُن کے رہتی ہیں سدا غمخوار کی باتیں


ترے ربّ نے تُجھے بخشا مقام و مرتبہ ایسا

گلی کُوچوں میں ہوتی ہیں ترےکردار کی باتیں


پلٹ کر ارضِ طیبہ سے تُو آیا ہے ، سُنا حاجی

ذرا اُس شہر کی باتیں ، مرے سرکارْ کی باتیں


ترے اخلاق سا آقا !کسی کا ہے کہاں ممکن

کہ دُشمن سے کرے کوئی ہمیشہ پیار کی باتیں


ستارے، چاند ،سُورج سب بکھیریں اپنی جب کرنیں

تو وہ کرتے ہیں آپس میں، ترے انوار کی باتیں


خزانہ عِلم و حکمت کا ، دیا جو تُو نے دُنیا کو

ہیں صدیوں بعد بھی آقاْ ! ترے افکار کی باتیں


ترے مُکھڑے کو تک کر جو پڑھے حسّان نے آقاْ !

ہر اِک عاشق کے لب پر ہیں اُنہی اشعارکی باتیں


جلیل اُن کا میں نوکر ہوں،کروں گا اُن کی مدّاحی

پڑی ہے کیا بھلا مُجھ کو ،کروں اغیار کی باتیں

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

ہر گھڑی وردِ صلِّ علیٰ کیجئے

رونق ہو زندگی کی اِس میں بہار تُم سے

رنج و الم کا ہر گھڑی گرچہ وفور ہے

زائر جو بھی شہرِ مدینہ اپنے گھر سے جاتے ہیں

ارضِ طیبہ میں اِک بار جائے کوئی

مدینے جا کے آقا سے ، مرا یہ ماجرا کہنا

وہ سرکار جب سے ہمارے ہوئے ہیں

شہا ! مُجھ سے نکمّے کو شعور و آگہی دے دیں

مُجھ نکمّے کو اذنِ ثنا مل گیا

میرے مولا کا مُجھ پر کرم ہو گیا