ہر اک سانس ان کی خوشبو پارہے ہیں

ہر اک سانس ان کی خوشبو پارہے ہیں

لو ہم پھر سے مدینے جا رہے ہیں


رکے جبریل سدرہ پر پہنچ کر

مرے آقا بڑھے ہی جارہے ہیں


حبیبی یا محمد اُدْنُ مِنِّي

ندا رب کی طرف سے پا رہے ہیں


بھنووں کے بیچ کی دوری سے بھی کم

قریب اتنے وہ رب کے آرہے ہیں


فرشتو مجھ کو دوزخ میں نہ ڈالو

وہ دیکھو میرے سرکار آ رہے ہیں


شفیع المذنبیں ہیں میرے مولی ٰ

تبھی تو مغفرت فرما رہے ہیں


کھڑے ہیں انبیا پیچھے اور آقا

درِ خلدِ بریں کھلوا رہے ہیں


شکم پر باندھے پتھر مالکِ کُل

فقیری کا سبق سکھلا رہے ہیں


نکیرو ان کے بارے میں پوچھو

یہ میرے دل میں ہر ہر جارہے ہیں


وفاداری بہ شرطِ استواری

حسین ایماں ہمیں سکھلا رہے ہیں


چلو آقا تمھیں بلوا رہے ہیں

چلو آقا تمھیں بلوا رہے ہیں

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

سرو گل زارِ ربِ جلیل آپ ہی ہیں

کیسا انسان یہ پیدا ہوا انسانوں میں

وہ کمالِ حسنِ حضور ہے کہ گمان نقص ذری نہیں

قسم یاد فرمائی قرآں نے جن کی وہی تو مری زیست کے مدعا ہیں

ہمرے حق میں تم دعا کرو ہم طیبہ نگر کو جاوت ہیں

مسلماں نامِ رب لے کر قدم مشکل میں رکھتے ہیں

رسولِ پاک کا روضہ تلاش کرتے ہیں

جانتے ہیں ہم کہ نظمی آپ کیوں مغرور ہیں

یہی آرزو ہے یہی جستجو ہے

ذرا چھیڑ تو نغمۂ قادریت کہ ہر تار بولے گا تن تن تنا تن