جانتے ہیں ہم کہ نظمی آپ کیوں مغرور ہیں
نسبتِ سرکارِ طیبہ کے نشے میں چور ہیں
جانِ رحمت کانِ راحت ہیں محمد مصطفیٰ
جلوہء نورِ ازل ہیں اور سراپا نور ہیں
کس میں طاقت ہے بیاں اوصافِ احمد کرسکے
خوبیاں ان کی کلامِ پاک میں مسطور ہیں
یا رسول اللہ کے نعرے کو جو بدعت کہیں
دیوبندی عالم اسلام کے ناسور ہیں
فاتحہ میلاد و استمداد سے انکار ہے
نجدی اپنی کس مسلمانی پہ یوں مغرور ہیں
صحتِ ایماں کی علامت ہے کھڑے ہو کر سلام
دیوبندی تن سے بھی اور من سے بھی معذور ہیں
ماہیِ بے آب کی تمثیل کے مصداق ہیں
عاشقانِ مصطفیٰ طیبہ سے جب تک دور ہیں
اتباعِ سنّتِ صدیق اکبر ہے کہ ہم
بادہء حبِّ رسولِ پاک سے مخمور ہیں
آنکھ نم ہے دل میں غم ہے لب پہ آہوں کا ہجوم
کیوں نہ ہو طیبہ کی گلیاں ہم سے اتنی دور ہیں
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا