جانتے ہیں ہم کہ نظمی آپ کیوں مغرور ہیں

جانتے ہیں ہم کہ نظمی آپ کیوں مغرور ہیں

نسبتِ سرکارِ طیبہ کے نشے میں چور ہیں


جانِ رحمت کانِ راحت ہیں محمد مصطفیٰ

جلوہء نورِ ازل ہیں اور سراپا نور ہیں


کس میں طاقت ہے بیاں اوصافِ احمد کرسکے

خوبیاں ان کی کلامِ پاک میں مسطور ہیں


یا رسول اللہ کے نعرے کو جو بدعت کہیں

دیوبندی عالم اسلام کے ناسور ہیں


فاتحہ میلاد و استمداد سے انکار ہے

نجدی اپنی کس مسلمانی پہ یوں مغرور ہیں


صحتِ ایماں کی علامت ہے کھڑے ہو کر سلام

دیوبندی تن سے بھی اور من سے بھی معذور ہیں


ماہیِ بے آب کی تمثیل کے مصداق ہیں

عاشقانِ مصطفیٰ طیبہ سے جب تک دور ہیں


اتباعِ سنّتِ صدیق اکبر ہے کہ ہم

بادہء حبِّ رسولِ پاک سے مخمور ہیں


آنکھ نم ہے دل میں غم ہے لب پہ آہوں کا ہجوم

کیوں نہ ہو طیبہ کی گلیاں ہم سے اتنی دور ہیں

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

قسم یاد فرمائی قرآں نے جن کی وہی تو مری زیست کے مدعا ہیں

ہمرے حق میں تم دعا کرو ہم طیبہ نگر کو جاوت ہیں

ہر اک سانس ان کی خوشبو پارہے ہیں

مسلماں نامِ رب لے کر قدم مشکل میں رکھتے ہیں

رسولِ پاک کا روضہ تلاش کرتے ہیں

یہی آرزو ہے یہی جستجو ہے

ذرا چھیڑ تو نغمۂ قادریت کہ ہر تار بولے گا تن تن تنا تن

اَن حد کی حد جان کے تُو ذاتِ احمد کو جان

روح میں الفتِ سرکار لیے بیٹھے ہیں

میں دن رات نعتِ نبی لکھ رہا ہوں