کیسا انسان یہ پیدا ہوا انسانوں میں

کیسا انسان یہ پیدا ہوا انسانوں میں

خون توحید کا دوڑا دیا شریانوں میں


گونجا فاران سے جب نعرہ اللہُ احد

کھلبلی مچ گئی دنیا کے صنم خانوں میں


جس مسیحائی کا حامل تھا لعابِ احمد

وہ میسر نہ دوکانوں نہ دواخانوں میں


ارضِ یثرب پہ قدم رکھ دیے آقا نے مرے

نورو نکہت کی بہار آگئی ویرانوں میں


حبِ احمد کا یہ اعجاز تو دیکھو لوگو

ڈھونڈتے پھرتے ہیں ساحل مجھے طوفانوں میں


سچے دل سے ذرا پڑھ لیجیے اک بار درود

اک نئی تازگی آ جائے گی ایمانوں میں


عیدِ میلادِ نبی سے ہے منور بستی

ہاں اندھیرے ہی رہیں غیر کے کاشانوں میں


اے خدا قادری مے خانہ سلامت رکھنا

مئے بغداد چھلکتی رہے پیمانوں میں


سوچیے سوچیے کیسے تھے وہ قدرت والے

جن کے قدموں کے نشاں بن گئے چٹانوں میں


حکمِ آقا پہ اٹھا لائیں اثاثہ اپنا

جذبِ صدیق کہاں اب کے مسلمانوں میں


اس لیے نعت کے میداں میں رکھا میں نے قدم

نام نظمی کا بھی لکھ جائے ثنا خوانوں میں

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

ہوئی مصطفیٰ کی نظر اگر نہیں کوئی فکر حساب میں

بسی ہے جب سے وہ تصویرِ یار آنکھوں میں

ہم سر کے بل چلیں گے طیبہ کے راستے میں

فلک پہ دھومیں مچی ہوئی ہیں ملائکہ جھومے جا رہے ہیں

سرو گل زارِ ربِ جلیل آپ ہی ہیں

وہ کمالِ حسنِ حضور ہے کہ گمان نقص ذری نہیں

قسم یاد فرمائی قرآں نے جن کی وہی تو مری زیست کے مدعا ہیں

ہمرے حق میں تم دعا کرو ہم طیبہ نگر کو جاوت ہیں

ہر اک سانس ان کی خوشبو پارہے ہیں

مسلماں نامِ رب لے کر قدم مشکل میں رکھتے ہیں